کالعدم تحریک طالبان شکست وریخت کا شکار


کالعدم تحریک طالبان شکست وریخت کا شکار

mullah fazlullah
حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے ساتھ ہی تحریک طالبان پاکستان میں اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے۔ تاہم تنظیم کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب محسود طالبان نے ٹی ٹی پی سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان مولانا اعظم طارق کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے نام پربھتہ خوری کی اجازت نہیں دے سکتے، موجودہ نظام کے تحت ڈاکہ زنی اور بھتہ خوری کی جا رہی ہے، ٹی ٹی پی کا نظام سازشی ٹولے کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے، کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں اتحاد کی کوششیں کیں، مگر سازشیں ناکام ہوگئیں۔انہوں نے کہا کہ ظالم کو ظلم سے روکنے کی ہر ممکن کوششیں کریں گے۔اعظم طارق نے مزید کہا کہ ہم نے کالعدم تحریک طالبان میں اصلاح واتحاد کی کوشش کیں، مگر اب یہ کارروائیاں مزید برداشت نہیں ہوسکتیں، ہم امیرخالد محسود کی قیادت میں نیا گروپ بنانے اور علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں، مسلک،عقائد ونظریات کی پرچار سے دوسرے حلقوں کے طالبان بدظن ہوئے ہیں، موجودہ تحریک طالبان پاکستان باہر سے پیسے لے کر اجرتی قاتل بنی ہوئی ہے، ہم درس گاہوں اور خانقاہوں پر دھماکے پر یقین نہیں رکھتے ، عوام اور عام مقامات کو نشانہ بنانا نہیں چاہتے۔

542d2a674e940

واضح رہے شمالی و جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ذیلی گروپوں میں کئی ماہ سے زمینی اور طاقت کے حصول کیلئے خان سجنا گروپ اور شہریار گروپ میں مسلح تصادم جاری تھا، جس کے تحت دونوں جانب سے کئی دہشت گرد مارے گئے،دونوں گروپوں کے درمیان اختلافات امریکی میزائل حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد سامنے آنا شروع ہوئے۔ اس وقت کالعدم تحریک طالبان پاکستان انتشار کا شکار اور اس میں قیادت کا فقدان ہے اور اندرونی لڑائی کے نتیجے میں اس کے 90 سے زائد جنگجو مارے جاچکے ہیں، طالبان کے گروپوں میں یہ لڑائی قیادت سنبھالنے کے مسئلے پر ہورہی ہے. قبائلی علاقوں اور افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف سمجھتے ہیں کہ یہ تقسیم طالبان کی کمر ٹوٹنے کے مترادف ہے مزید گروپ بھی کالعدم تحریک طالبان سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ طالبان تنظیم مزید کمزور ہوگی۔ محسود ،طالبان کا بانی قبیلہ اور اصل طاقت تھی اور محسود کے الگ ہو جانے سے تحریک طالبان کو زبردست نقصان پہنچے گا۔ طالبان میں جھگڑے کی وجہ طاقت کا حصول اور روپیہ پیسہ و خزانہ ہے۔ طالبان کے یہ اختلافات طالبان کے لئے بڑا دہچکا ثابت ہونگے اور یہ عضو معطل ہو کر رہ جائیں گے اور ان کے حملہ کرنے کی طاقت کو زبردست نقصان پہنچ چکا ہے اور طالبان ایک مربوط و مضبوط تنظیم کی حثیت کھو چکی ہے۔ حالیہ دنوں میں تنظیم ایک مرتبہ پھر سے مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آ رہی ہے۔ مولانا فضل اللہ کے قریبی اتحادی سمجھنے جانے والے مہمند ایجنسی کے عسکریت پسند کمانڈر عمر خالد خراسانی گروپ اور چند دیگر منحرف کمانڈروں نے ٹی ٹی پی کو خیر باد کہہ کر جماعت الحرار کے نام سے نئی تنظیم کی بنیاد ڈال دی ہے۔

757845-shahidullahshahidINP-1409848751-637-640x480
ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان شاہد اللہ شاہد اور کچھ دیگر اہم کمانڈروں نے بھی کچھ دن پہلے دولت اسلامیہ کے امیر المومنین ابوبکر البغدادی پر بیعت کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے تحریک طالبان مزید تقسیم در تقسیم کا شکار دکھائی دیتی ہے۔
نئے اتحادوں سے طالبان میں اب کئی دھڑے بن چکے ہیں جبکہ ان دھڑوں کی حکمت عملی بھی تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔

219009-Taliban-1390172858-524-640x480
پشاور میں شدت پسندی پر تحقیق کرنے والے سینئیر تجزیہ نگار اور مصنف ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی میں اندرونی اختلافات اور آپریشن ضرب عضب کے باعث اس تنظیم کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم مکمل طور پر ٹوٹ چکا ہے جس سے تنظیم کافی حد تک کمزور ہو چکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کئی اہم کمانڈروں کے جانے کے بعد اس تنظیم کو نظریاتی طورپر بڑا نقصان پہنچا ہے اور اس سے یقینی طورپر نئی بھرتیوں پر بھی اثر پڑا ہوگا۔ ڈاکٹر خادم حسین کے مطابق عالمی سطح پر شدت پسندوں کے نئے اتحاد بن جانے سے پاکستان میں بھی شدت پسندوں کی حکمت عملی تبدیل ہو رہی ہے۔

mullah_omar_670
تحریک طالبان پاکستان میں اختلافات ایک بار پھر شدت اختیار کر گئے۔ملافضل اللہ کی قیادت پر تحریک کے متعدد گروہوں نے شدیدتحفظات کا اظہار کردیا۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تحریک طالبان کے مزید شدت پسندوں نے داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی سے بیعت کیلئے رجوع کرلیا ہے۔اس سے قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان شاہد اللہ شاہد سمیت پانچ شدت پسندوں نے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی۔دولتِ اسلامیہ نے تصدیق کی ہے کہ اس نے طالبان کے ایک سابق ترجمان حافظ سعید خان کو اس خطے میں اپنا کمانڈر مقرر کر دیا ہے۔ حافظ سعید اس سے قبل طالبان سے منحرف ہو گئے تھے۔

Taliban-choose-Khalid-Said-Sajna-as-TTP-chief
حافظ سعید خان دس روز قبل ایک ویڈیو میں ظاہر ہوئے تھے۔ اب دولتِ اسلامیہ سے منسلک ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ سے نشر کیے جانے والے ایک آڈیو بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ دولتِ اسلامیہ کے نئے کمانڈر مقرر کر دیے گئے ہیں۔
سعید خان کا تعلق اورکزئی ایجنسی ہے اور وہ تحریکِ طالبان پاکستان اورکزئی ایجنسی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔خراسان افغانستان کا قدیم نام ہے، اور بعض مسلمانوں کے لیے اس میں تاریخی کشش موجود ہے۔

2423011F00000578-2878723-Hafiz_Saeed_Khan_centre_is_understood_to_be_one_of_six_commander-a-22_1418897303020150126113418_thought_crime_gch_is_supporters_624x351_afpgetty

خود افغانستان میں ابھی تک صرف شمالی صوبے ہلمند میں دولتِ اسلامیہ کے سیاہ پرچم نظر آئے ہیں۔ وہاں طالبان سے منحرف ایک کمانڈر ملا عبدالرؤف نے کہا تھا کہ انھوں نے دولتِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
ذرائع کے مطابق تحریک طالبان کے وہ گروپ داعش میں شمولیت اختیا رکررہے ہیں جو ملاعمر کی امارت سے اختلاف کرکے بغاوت کرچکے ہیں۔عسکری ذرائع کے مطابق آپریشن ضرب عضب کے بعد کالعدم تحریک طالبان شکست وریخت کا شکار ہوچکی ہے۔ذرائع کے مطابق ملا فضل اللہ کی پالیسیوں سے اختلافات کی وجہ سے کالعدم تحریک طالبان کے مزید گروپوں نے تحریک سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔تحریک طالبان کے عمرخراسانی کے جانے کے بعد خراسانی گروپ کے مزید طالبان کے فضل اللہ سے اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں ۔ذرائع کے مطابق اس سے قبل محسود قبائل کے متعدد طالبان کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ فضل اللہ سے اختلافات کی وجہ سے علیحدہ ہوگئے تھے۔ تحریک طالبان میں حالیہ شکست و ریخت کی وجہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابیاں ہیں اور طالبان کی اکثریت فضل اللہ کے افغانستان میں روپوش ہونے کی شدید خلاف ہے تحریک طالبان پاکستان تنظیمی طور پر 80 فیصد شکست و ریخت کا شکار ہوچکی اوراس سے منسلک 32 دیگر شدت پسند تنظیموں نے بھی ملا فضل اللہ سے اختلافات کی وجہ سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب کے شروع ہونے کے بعد سے ملک میں دہشت گردی کے بڑے واقعات میں کسی حد تک کمی دیکھی جارہی ہے۔ س آپریشن کی وجہ سے شدت پسندوں کا اب ملک کے کسی علاقے میں کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں رہا یعنی وہ یا تو بدستور بھاگ رہے ہیں یا اپنے لیے کسی مستقل مسکن کی تلاش میں ہیں۔

pic_giant_071414_SM_Abu-Bakr-al-Baghdadi
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آپریشن ضرب عضب، شدت پسندوں میں تقسیم در تقسیم اور دولت اسلامیہ کے ظہور سے پاکستان سے کسی حد تک عسکری تنظیموں کی توجہ ہٹ رہی ہے۔ اس طرح کی اطلاعات بھی ہیں کہ پاکستان سے پہلے بھی شدت پسند عراق اور دیگر ممالک جاتے رہے ہیں جبکہ دولت اسلامیہ کی طرف سے اسلامی خلافت کے اعلان سے اب ان عسکریت پسندوں کےلیے مشرق وسطیٰ کی طرف جانے کے امکانات بھی روش ہو رہے ہیں۔
شدت پسندی پر نظر رکھنے والے شعبۂ صحافت پشاور یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور امریکہ میں پی ایچ ڈی کے سکالر سید عرفان اشرف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں طالبان کی قیادت دولت اسلامی سے الحاق کے معاملے پر تقسیم ہوگئی ہے جس سے ان کا زور ٹوٹ رہا ہے۔ قبائلی علاقوں میں گذشتہ چھ سات سالوں سے جاری فوجی کارروائیوں کی وجہ سے بیشتر ایجنسیوں سے شدت پسندوں کا صفایا کر دیا گیا ہے یعنی اب ایسا کوئی علاقہ نہیں رہا جہاں عسکریت پسند مستقل طور پر رہائش پذیر ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں ملک کے اندر دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات میں کمی کے امکانات ہیں۔