اسلام


اسلام میں اقلیتیوں کے حقوق
اقبال جہانگیر

کسی بھی اقلیتی فرد کا قتل ایک عظیم سانحہ ہے اور یہ اسلامی شریعہ کے بالکل خلاف ہے۔ کسی بھی فرد کو یہ حق نہ ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر دوسسرے کو خود سزا دینا شروع کر دے ۔اسلام میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں اور طالبان اور القاعدہ دہشت گرد تنظیمیں ہولناک جرائم کے ذریعہ اسلام کے چہرے کو مسخ کررہی ہیں۔ برصغیرسمیت پُوری دنیا میں اسلام طاقت سے نہیں،بلکہ تبلیغ اور نیک سیرتی سے پھیلاجبکہ دہشت گرد طاقت کے ذریعے اسلام کا چہرہ مسخ کررہے ہیں۔
’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔‘‘
ابوداؤد، السنن، کتاب الخراج، باب في تعشير، 3 : 170، رقم : 3052
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اقلیتوں کے بارے مسلمانوں کو ہمیشہ متنبہ فرماتے تھے، چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاہدین کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا :
من قتل معاهدا لم يرح رائحة الجنة وان ريحها توجد من مسيرة اربعين عاما.
’’جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پھیلی ہوئی ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجزيه، باب إثم من قتل، 3 : 1154، رقم : 2995
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الديات، باب من قتل معاهدا2 : 896، رقم : 2686
3. ربيع، المسند، 1 : 367، رقم : 956

جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہی حقوق ذمیوں کو بھی حاصل ہوں گے، نیز جو واجبات مسلمانوں پر ہیں وہی واجبات ذمی پر بھی ہیں۔ ذمیوں کا خون مسلمانوں کے خون کی طرح محفوظ ہے اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح محفوظ ہے۔(درمختار کتاب الجہاد)
امام ابو یوسف اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’کتاب الخراج‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عہدِ نبوی اور خلافتِ راشدہ میں تعزیرات اور دیوانی قانون دونوں میں مسلمان اور غیر مسلم اقلیت کا درجہ مساوی تھا۔
ابو يوسف، کتاب الخراج : 187
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا :
أنا أحق من أوفي بذمته.
’’غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔‘‘
اسلامی ریاست میں تعزیرات میں ذمی اور مسلمان کا درجہ مساوی ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمان کو دی جائے گی وہی ذمی کو بھی دی جائے گی۔ ذمی کا مال مسلمان چرائے یا مسلمان کا مال ذمی چرائے دونوں صورتوں میں سزا یکساں ہوگی۔
ابويوسف، کتاب الخراج : 108، 109
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام کے گورنر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو جو فرمان لکھا تھا اس میں منجملہ اور احکام کے ایک یہ بھی تھا کہ :
وامنع المسلمين من ظلمهم والإضراربهم واکل اموالهم إلا بحلها.
’’مسلمانوں کو ان پر ظلم کرنے اور انہیں ضرر پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کے مال کھانے سے منع کرنا۔‘‘
ابويوسف، کتاب الخراج : 152
ذمیوں کے اموال اور املاک کی حفاظت بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جوغیر مسلم اسلامی ریاست میں قیام پذیر ہوں اسلام نے ان کی جان، مال، عزت وآبرو اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔اور حکمرانوں کو پابند کیا ہے کہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے مساوی سلوک کیا جائے۔ ان غیر مسلم رعایا(ذمیوں) کے بارے میں اسلامی تصوریہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی پناہ میں ہیں۔ا س بناء پر اسلامی قانون ہے کہ جو غیر مسلم، مسلمانوں کی ذمہ داری میں ہیں ان پر کوئی ظلم ہوتو اس کی مدافعت مسلمانوں پر ایسی ہی لازم ہے جیسی خود مسلمانوں پر ظلم ہوتو اس کا دفع کرنا ضروری ہے۔(مبسوط سرخسی:۱/۸۵)
قرآن مجید بلاشبہ انسانیت کا محافظ ہے یہی وہ کتاب حق ہے جو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے "اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا ہے کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین پر فساد مچانے والا ہو ، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا اور جو شخص کسی ایک شخص کی جان بچائے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا۔ (المائدہ5:32)
حضرت عمر نے غیر مسلموں کی جان ومال کو مسلمانوں کے جان ومال کے برابر قرار دیا‘ مسلمان اگر کسی ذمی کو قتل کرڈالتا تھا تو حضرت عمر فوراً اس کے بدلے میں مسلمان کو قتل کرادیتے تھے۔ مولانا شبلی نے روایت کی ہے کہ قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک عیسائی کو مار ڈالا‘ حضرت عمر نے لکھ بھیجا کہ قاتل ‘ مقتول کے ورثاء کے حوالے کردیا جائے‘ چنانچہ وہ شخص مقتول کے وارث جس کا نام حسنین تھا‘ حوالہ کیا گیا اوراس نے اس کو قتل کر ڈالا۔ مال اور جائیداد کے متعلق حفاظت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی تھی کہ جس قدر زمینیں ان کے قبضے میں تھیں‘ اسی حیثیت سے بحال رکھی گئیں جس حیثیت سے فتح سے پہلے ان کے قبضے میں تھیں‘ یہاں تک کہ ان مسلمانوں کو ان زمینوں کا خریدنا بھی ناجائز قرار دیا گیا.
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :
دية اليهودي والنصراني والمجوسي مثل دية الحر المسلم.
’’یہودی، عیسائی اور مجوسی کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر ہے۔‘‘
مندرجہ قران و حدیث اور حالات وواقعات کی روشنی میں یہ یقین سے کہا جاسکتاہے کہ غیر مسلموں کی جان‘ مال‘ عزت وآبرو اور مذہب کا اسی قدر استحفاظ کیا جانا چاہیے جس قدر مسلمان کی عزت وناموس کا۔ اسلام میں اقلیتوں کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔

جہاد اور اسلام

  اسلامی تعلیمات سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح  واضح ہے کہ جہاد اسلام کا ایک اہم ستون ہے، یہ محض قتال، جنگ یا دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کا نام نہیں۔ یہ رکن اس وقت ہر مومن پر فرض ہو جاتا ہے  جب کفار مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ پر اتر آئیں، اور ان پر ناحق ظلم و ستم کا بازار گرم کریں۔

جہاد کے لغوی معنی:  سعی و کوشش ہے، اﷲ کے راستے میں ہر قسم کی سعی و کوشش اور حق کو سربلند کرنے کے لئے ہر طرح کی جدوجہد ہر مسلمان کے لئے ضروری قرار دی گئی ہے،یہ جدوجہد زبان سے ہو یا قلم سے یا مال سے یا زور بازو سے اس آخری صورت کو  جہاد بالسیف   اور  قتال فی سبیل اﷲ   بھی کہا جاتا ہے ،قرآن کریم میں جہاد کا لفظ اپنے مذکور بالا عمومی معنی میں جابجا استعمال ہواہے ؛چنانچہ فرمایا:” اﷲ کے راستہ میں کوشش کا حق ادا کرو” یہاں مسلمانوں سے کہا  گیا ہے کہ وہ راہ حق میں تن ،  من ،  دھن کی بازی لگادیں اور حق کو سربلند کرنے کے لئے جو کچھ کرسکتے ہیں کر گزریں،       پھر ضروری نہیں کہ یہ جہا د یا جدوجہد دوسروں ہی کے مقابلہ پر ہو، اپنے خلاف بھی ہوسکتی ہے؛ بلکہ اپنے نفس کو زیر کرنا جو سینہ پر چڑھا بیٹھا ہے؛ چونکہ سب سے زیادہ مشکل ہے اس لئے اسے  ” جہاد اکبر”    سب سے بڑا جہاد قرار دیا گیا ہے ،    ارشاد نبوی ہے :

  ” سب سے بہتر جہاد یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس اور اپنی خواہش کے خلاف جہاد کرے "

جہاد  ایک مسلسل عمل ہے اور  اس کی درجِ ذیل اقسام ہیں :

1۔ جہاد بالعلم

3۔ جہاد بالمال

2۔ جہاد بالعمل

4۔ جہادبالنفس

5۔ جہاد بالقتال

1۔ جہاد بالعلم

یہ وہ جہاد ہے جس کے ذریعے قرآن و سنت پر مبنی احکامات کا علم پھیلایا جاتا ہے تاکہ کفر وجہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور دنیا رشد و ہدایت کے نور سے معمور ہو جائے۔

2۔ جہاد بالعمل

جہاد بالعمل کا تعلق ہماری زندگی سے ہے۔ اس جہاد میں قول کے بجائے عمل اور گفتار کی بجائے کردار کی قوت سے معاشرے میں انقلاب برپا کرنا مقصود ہے۔ جہاد بالعمل ایک مسلمان کیلئے احکامِ الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زندگی کو ان احکام کے مطابق بسرکرنے کا نام ہے۔

3۔ جہاد بالمال

اپنے مال کو دین کی سر بلندی کی خاطر اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کو جہاد بالمال کہتے ہیں۔

4۔ جہاد بالنفس

جہاد بالنفس بندۂ مومن کیلئے نفسانی خواہشات سے مسلسل اور صبر آزما جنگ کا نام ہے۔ یہ وہ مسلسل عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے پر محیط ہے۔ شیطان براہ راست انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر نفس کو مطیع کر لیا جائے اور اس کا تزکیہ ہو جائے تو انسان شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

5۔ جہاد بالقتال

یہ جہاد میدانِ جنگ میں کافروں اور دین کے دشمنوں کے خلاف اس وقت صف آراء ہونے کا نام ہے جب دشمن سے آپ کی جان مال یا آپ کے ملک کی سرحدیں خطرے میں ہوں۔ اگر کوئی کفر کے خلاف جنگ کرتا ہوا مارا جائے تو قرآن کے فرمان کے مطابق اسے مردہ نہ کہا جائے بلکہ حقیقت میں وہ زندہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَO

’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔‘‘

 البقره، 2 : 154

”جہاد “فی سبیل اللہ در حقیقت دو محاذوں پر روبہ عمل آتا ہے ایک داخلی جہاد اور دوسرا خارجی جہاد : داخلی جہاد سے مراد انسان کا خود اپنے آپ کو پہچاننا اور رب سے ملانا ہے ، جبکہ خارجی جہاد سے مراد ہے دوسرے لوگوں کو ان کی ذات اور رب سے ملانا، پہلی قسم کو جہاد اکبر اور دوسری قسم کو جہاد اصغر کہا جاتا ہے۔ یعنی سب سے پہلے انسان خود کو سمجھے اپنے آپ اور اپنے نفس کے درمیان موجود رکاوٹوں کو عبور کرے یہاں تک کہ معرفت الہی، محبت الٰہی اور روحانی مٹھاس کو پالے ۔ جبکہ دوسری قسم میں ایسی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہوتا ہے جو انسانیت اور ایمان باللہ کے درمیان حائل ہوں چاہے یہ رکاوٹیں پیہم جد وجہد سے دور ہوں یا قتال سے ، تاکہ انسا ن کو اللہ سے ملا دیا جائے. جہاد کی دونوں قسمیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں‘دونوں ہی ایک قسم کی جنگ ہیں.

کفار اور محاربین کے ساتھ جنگ فرض کفایہ ہے۔۔۔ اگر کچھ لوگ یہ فریضہ سر انجام دے رہے ہوں تو باقی لوگوں  پرفرض ساقط ہو جاتا ہے۔۔۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

“اور یہ مناسب نہیں کہ سارے مسلمان نکل پڑیں، پس ایسا کیوں نہ کیا کہ ہر قوم میں سے چند آدمی نکلیں تا کہ دین کی سمجھ حاصل کر سکیں اور جب اپنی قوم میں آئیں تو ان کو ڈرائیں تا کہ وہ (برے کاموں سے) بچ سکیں۔” (سورۃ توبہ آیت نمبر 122)

جہاد صرف میدان جنگ میں جاکر لڑنے کا ہی نام نہیں ہے۔ میدان عمل و اخلاق میں سعی پیہم اور سیاسی و تحقیقاتی امور میں تعاون و شراکت بھی جہاد کا درجہ رکھتی ہے۔ معاشرے میں صحیح طرز فکر اور ثقافت کی ترویج بھی جہاد ہے، کیونکہ دشمن کی جانب سے گمراہ کن اقدامات کا خدشہ رہتا ہے۔ وہ ہماری فکریں منحرف کر سکتا ہے، ہمیں غلطیوں کا شکار بنا سکتاہے۔ جو شخص بھی عوام کی ذہنی بیداری و آگاہی کے لئے کام کرے، فکری انحراف کا سد باب کرے، غلط فہمی پھیلنے سے روکے، چونکہ وہ دشمن کے مد مقابل کھڑا ہے اس لئے اس کی یہ سعی و کوشش جہاد کہلائے گی۔ یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے۔

اسلام ہر سطح پر اور ہر موقع پر احترام انسانیت کا درس دیتا ہے ۔معمولی قسم کی دہشتگردی بھی خلاف اسلام ہے ۔جہاد کا معنی انسان کی نجی و اجتماعی اور ظاہری و باطنی بھلائی کے لیے بھرپور کوشش ہے۔ جہاد کا لفظ 35مرتبہ قرآن میں آیا ہے اور صرف 4مقامات پر جارح دشمن سے اپنے دفاع کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جبکہ بقیہ 31مقامات پر جہاد کہیں بھی قتال یا لڑائی کے معنی میں نہیں آیا۔

علمائِ اسلام ایسے جہاد اور اسلام کو’’ فساد فی الارض ‘‘اور دہشت گردی قرار دیتے ہیں جس میں اپنے مخالف علماء ومشائخ کے گلے کاٹیں جائیں ،بے گناہ لوگوں حتی کہ عورتوں اور سکول کے بچوں کو بے دردی کیساتھ شہید کیا جائے ،لڑکیوں کو گھروں سے اٹھا کر ان سے جبراً نکاح کیا جائے، جس میں اسلامی سٹیٹ کو تباہ اور بے گناہوں کو شہید کرنے کیلئے خود کش حملہ آوروں کو جنت کے ٹکٹ دیئے جائیں، جس میں جہاد فی سبیل اللہ کی بجائے جہاد فی سبیل غیر اللہ ہو، جس میں مساجد اور مزارات اولیاء پر بم دھماکے کر کے نمازیوں اور قرآن خوانی کرنے والوں کو بے دردی کیساتھ شہید کیاجائے۔

اسلام نے واضح کر دیا ہے کہ ظلم، سرکشی، دہشت گردی، اور جبر کے خاتمے کے لئے مسلح جدوجہد کی جا سکتی ہے لیکن یہ جدوجہد صرف اور صرف حکومت ہی کا حق ہے۔ اسلام افراد اور گروہوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ جہاد کے مقدس نام پر پرائیویٹ افواج تیار کریں اور اس کے بعد عوام الناس کو دہشت گردی کا نشانہ بنائیں۔ اس بات پر چودہ صدیوں کے مسلم اہل علم کا اتفاق اور اجماع ہے۔ اس حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان الفاظ میں واضح فرمایا ہے۔

أخبرنا عمران بن بكار قال حدثنا علي بن عياش قال حدثنا شعيب قال حدثني أبو الزناد مما حدثه عبد الرحمن الأعرج مما ذكر أنه سمع أبا هريرة يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال :  إنما الإمام جنة يقاتل من ورائه ويتقي به فإن أمر بتقوى الله وعدل فإن له بذلك أجرا وإن أمر بغيره فإن عليه وزرا۔ (نسائی، ابو داؤد ، کتاب الامارۃ)

افراد اور گروہوں کو جہاد کی اجازت نہ دینے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر انہیں ایسا کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا کہ مختلف گروہ جنگ میں حصہ لیں گے اور جب ان کا مشترک دشمن ختم ہوگا تو اس کے بعد یہ گروہ آپس میں ٹکرا جائیں۔ پرائیویٹ آرمیز کی موجودگی میں کبھی کسی معاشرے میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا.

                        جو لوگ قتال فی سبیل اللہ میں عملاً حصہ لینا چاہتے ہوں، ان کے لئے اسلام کے نقطہ نظر سے جہاد کی عملی صورت یہی ہے کہ اگر وہ اپنی حکومتوں کے اخلاق اور کردار سے مطمئن ہوں تو حکومت کی فوج، پولیس یا کسی اور سکیورٹی فورس میں شامل ہو جائیں۔ اس کے بعد وہ ڈاکوؤں، چوروں، اسمگلروں، منشیات فروشوں اور دہشت گردوں کے خلاف جہاد کریں۔ عام لوگ ٹیکسوں کی صورت میں اس جہاد میں شریک ہوتے ہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عام لوگ ان مجاہدین کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کر سکتے ہیں۔

اسلام میں صرف دفاعی جنگ کی اجازت ہے اور کسی مصلحانہ جنگ کے نام پر جارحانہ جہاد کی اجازت نہیں ہے۔

موجودہ دور میں بھی جہاد کی وہی دو صورتیں ہیں جو کہ ہر دور میں رہی ہیں: ایک پرامن جہاد اور دوسرا مسلح جہاد۔ ان کی عملی صورتوں کو ہم یہاں بیان کریں گے۔

پرامن جہاد

پرامن جہاد کا آغاز انسان کی اپنی ذات سے ہونا چاہیے۔ اپنی ذات کو اخلاقی عیوب سے پاک رکھنا اور اس میں نیکی کے اوصاف پیدا کرنا اعلی ترین جہاد ہے۔ اپنی ذات کے ساتھ ساتھ دین کی ان اخلاقی حدود و قیود سے اپنی اولاد، خاندان، دوستوں، معاشرے اور حکومت کو آگاہ کرتے رہنے کا نام جہاد ہے۔ یہ وہ جہاد ہے جو ہر مسلمان ہر وقت جاری رکھ سکتا ہے۔

مسلح جہاد

دنیا میں ایسی بہت سی صورتیں پیش آ جاتی ہیں جب قومیں اور گروہ سرکشی پر اتر آتے ہیں اور وہ دوسروں کے لئے خطرہ بن کر ان پر ظلم و تعدی کا طوفان کھڑا کر دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان سے جنگ ناگزیر ہوا کرتی ہے۔

                        دین اسلام نے واضح کر دیا ہے کہ ظلم، سرکشی، دہشت گردی، اور جبر کے خاتمے کے لئے مسلح جدوجہد کی جا سکتی ہے لیکن یہ جدوجہد صرف اور صرف حکومت ہی کا حق ہے۔

جہاد فی سبیل اللہ خالصتاَایک للہیٰ عمل ہے۔ مجاہد کا دل ذاتی اغراض سے پاک اور صرف رضائے الہیٰ کی تمنا لئے ہوتا ہے ۔ اسے نہ مال و دولت سے غرض ہوتی ہے نہ غنیمت کی آرزو، نہ جاہ و جلال کا عارضہ لاحق ہوتا ہے ،نہ نام و نمود کی ہوس ۔ وہ فقط کفر و باطل کے قلعے کو مسمار کرکے اور طاغوتی قوتوں کو مٹا کر خدا کی زمین پر خداکی حکومت قائم کرنے کے لئے ہی اپناتن من دھن کی بازی لگاتا ہے ۔

ایک شخص اللہ کے رسول اللہ  کے پاس آیا ۔او ر عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ۔کوئی شخص تو ناموری کی غرض سے جہاد کرتا ہے ۔اور کوئی شخص اپنی بہادری دکھانے کے لئے لڑتا ہے ۔تو فی سبیل اللہ مجاہد کون ہے ۔فرمایا ۔وہ شخص جو محض اس لئے لڑے ۔کہ اللہ کا بول بالا ہو جائے ۔تو دراصل وہ شخص مجاہد فی سبیل اللہ ہے ۔(بخاری)

القاعدہ اور طالبان رد عمل کی تحریکیں ہیں اور رد عمل میں اٹھنے والی تحریکیں ان مخصوص حالات سے اوپر اٹھ کر نہیں سوچ پاتیں جن حالات میں انھوں نے جنم لیا ہو تا ہے۔ ایسی تحریکوں کے نظریات اور پالیسیاں حالات کے جبر کے تحت پہلے بنتی ہیں اور انکی تائید میں آیتیں اور حد یثیں بعد میں جمع کی جاتی ہیں۔ ایسی تحریکیں امت مسلمہ کے تمام مسائل اور حقائق کو نہ تو کما حقہ ‘ سمجھتی ہیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کر تی ہیں۔ کیونکہ اس طرح انکے نظریات اور پالیسیوں پر حرف آتا ہے۔ جنگ کی کوکھ سے جنم لینے والی تحریکوں کے پاس امت کے مسائل کا حل اسکے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ مار دو یا مر جاؤ۔ القاعدہ اور طالبان کے نظریات، پالیسیوں اور اقدامات نے اسلام اور مسلمانوں کو  من حیث و جماعت  کوئی فائدہ  نہ پہنچایا ہے   بلکہ  ان دونوں تنظیموں نے بے گناہوں کے قتل،مار دھاڑ اور   قتل وغارت گری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور قران کی غلط تشریحات کی ہیں۔ القائدہ کی حماقتوں کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو ناقابل تلافی جانی و مالی نقصانات  اٹھانا پڑے ہیں، آئیندہ کے لئے القائدہ  ،مسلمانوں اور اسلام کو اپنی عنایات سے باز اور معاف ہی رکھے تو یہ ملت اسلامی کے حق مین بہتر ہے۔ القائدہ نے اسلامی شعار کا مذاق اڑایا اور قران کی غلط تشریحات کر کے فلسفہ جہاد کی روح کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

“اسلام” پر 8 تبصرے

  1. البقرہ ۲ ایت نمبر ۳۶ میں اللہ فرماتا ہے (جیس کا مطلب ہے) پھر شیطان نے انہیں اس سے پھسلا دیا اورانہیں اس حال سے جس میں وہ تھے نکلوا دیااور ہم نے کہا اتر جاو تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تب سے لے کر اب تک انسان ایک دوسرے کا دشمن ہی ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر لڑتا ہے تو کبھی رزق کے لیئے، انسان اپنا جائزہ لے تو یقین ہو جائے گا کہ ہم کس قدر ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ ہم میں موجود لوگ ہمارے اندر نفرت کے بیج بوتے ہیں۔ کبھی مزہب کے نام پر تو کبھی زبان کے نام پر۔
    میڈیا کہتا ہے طالبان دنیا میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ بھائی کیا ثبوت ہے آپ کے پاس؟ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ جو بھی دھماکہ ہوتا ہے وہ سب امریکہ کرواتا ہو اور میڈیا اس کو غلط رنگ سے پیش کرتا ہو۔ بلا وجہ کسی کو غلط کہنا بھی تو ٹھیک نہیں۔

    پسند کریں

  2. جب طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان خود میڈیا کو فون کر کے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرلیں تو طالبان کی دہشت گردی میں ملوث نہ ہونے کے لئے کسی مزید ثبوت کی ضرورت نہ ہے۔ میڈیا طالبان کا مخالف نہ ہے۔ میڈیا اور طالبان،دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ میڈیا کے بغیر طالبان زیرو ہیں۔ طالبان کے حمایتی ہمیشہ ،طالبان کی دہشت گردی کا رخ موڑنے کے لئے دوسروں کو ملوث کرتے ہیں جو کہ غلط اور نامناسب ہے۔

    پسند کریں

  3. mohtaram app apny bary main kuch batain …k aap ka talluq kis qoom qabilay say hay … kis maslak say hay… or app ki taleem kia hay…. i mean deeni taleem kia hay… maslak ka batana pasand na karain to itna zarur bata dena k app shia ya qadiyani ya munkir e hadees ya jamatul muslimeen (takfeeri firqa) say taluq to nahi rakhty … ya app musharraf of zardari zehniyat k hain… ya deeni taleem ki bunyaad o aqaaid ko b nahi janty yani jahil hain…. mazrat k saath ye sab is liye puchna zaruri hay … k comment karny say pehly pata to chaly k colm likhny waly ki zehni o ilmi istedaad kia hay… phir app say inshaALLAH zaruur baat ho gi… ALLAH app ko hidayat day …

    پسند کریں

  4. ہمارے بھی ہیں مہربان کیسے کیسے
    محترم میں حنفی مسلمان ہوں اور خدا تعالی نے مجھے اعلی دینوی اور دنیاوی تعلیم سے نوازا ہے، جس کے لئے میں اپنے رب کا شکر گزار ہوں ۔ باقی آپ کی تمام باتیں لایعنی اور فضول ہیں اور کسی تبصرہ کے لائق نہ ہیں۔

    پسند کریں

  5. assalam u alaikum

    aik darkhwast hay k app apna naam bata dain … darasal naam say bulany main aik apnaiyat o uns ki kefiyat hoti hay…. or agar haqiqi naam batana munasib na samjhain to quniyat .
    aap nay bataya…. app hanfi muslim hain…. mashaALLAH…ALLAH hamin un nisbatoon ka b haq ada karny ki tafiq day jin say ham mansub hain …or un say kheyanat karny say bachaey…

    mera taluq b ahnaaf say hay… or jab ham dono ka taluq ahnaaf say hay to hamray darmeyan agar koi ilmi ikhtalaf ho to ham daikh lain gay k ahnaaf ka maslak us muamly main kia hay…
    kia app is say muttafiq hain…?

    پسند کریں

  6. islam main aqliyaton k haquuq … Iqbal Jahangir

    mery mohtaram Iqbal Jahangir

    app ki malumaat achi hain …. lakin moqa ki munasib nahi hain … main husn e zan rakhty huwy ye na kahu ga k quran ki aayat or ahadees or fiqah k hawaloon ko app ny (musalmano ko ) dhoka deny k liye isstamaal kiya hy … lakin ye zaruur kahu ga k app ny jahalat ki bina par in aayaat o ahadees or fiqah k hawala jaat ko ghalat istamaal karny ki bharpoor koshish ki hay… kuffaar zimmi sarrayi nizaam k tehet zindagi guzarny say hota hay… agar kafar kuffria nizaam k under zindagi guzar raha ho… to musalman par kuffar k zimmi waly koi haquuq nahi hon gay…
    iss waqt kisi mulk main sarrayi nizaam nahi hay… so iss waja say zimmi waly haquuq b kuffar ko hasil nahi hain… agar app ilmi zooq rakhty hain to iss baat par ghoor kijiye ga… or agar app jamhuri hakumaton main rehny waly kuffaar ko zimmi samajhty hain to iss ki daleel app k zimmy hay k (kuffria nizaam k tehet rehny waly kuffaar musalmano k liye zimmi ki hesiyat rakhta hay)
    jo hawaly or waqeaat app nay paish kiye hain… wo sary k sary un kuffar k bary main hain jo sarrayi nizaam k aagay sar e tasleem e kham ho gaey they… lakin afsoos k in hawalo or waqeaat ko paish kar k mutalba app ka jamhuri nizaam k under rehny waly kuffar k haquuq ka hay….
    awaz e pakistan sahab in iqbal jahangir sahab ka mazeed ta’aruf kesy hasil ho sakta hay…

    پسند کریں

  7. محترمی:
    اگر آپ کے نقطہ نظر کو تسلیم کرلیا جائےتو ایک بہت بڑا پنڈورا باکس کھل جائے گا اور کوئی بھی شرعی قانون و نظام قابل عمل نہ ہوگا اور ہر چیز دہڑام سے نیچے گر جائے گی۔ آپ کو چاہئیے کہ اسلامی فقہ کے نفاذ و تشریح کے اصول بغور پڑہیں۔

    پسند کریں

  8. مسلمانوں کو اس امر کا احساس کرناچاہئے کہ آج ان کے پیغمبر کی توہین اس لئے ہورہی ہے کہ وہ دنیا میں کمزورو ناتواں ہیں اور بین الاقوامی سطح پران کاکوئی وزن اور ان کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں ہے۔ اگر آج وہ تنکے کی طرح ہلکے نہ ہوتے تو کس کی مجال
    تھی کہ ان کے پیغمبرﷺ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھتا۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنا احتساب کریں ، اپنی کمزوریاں دور کریں اور اسبابِ ضعف کا خاتمہ کریں ۔ اپنے دین سے محکم وابستگی اختیار کریں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں احکامِ شریعت پر عمل کریں کہ یہی ان کے لئے منبع قوت ہے اور گہرے ایمان اور برتراخلاق کے ساتھ ساتھ علم و تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی متحد ہو کر آگے بڑھیں اور طاقتور بنیں تاکہ دنیاان کی بھی قدر کرے اور ان رہنمائوں کی بھی جنہیں وہ مقدس سمجھتے اور محترم گردانتے ہیں ۔

    ہو اگر عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
    نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق
    (اقبال)

    پسند کریں

تبصرہ کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

پاکستان دنیا کا ایک حسين وجميل ملك