عیدالفطر مبارک ہو


تمام اہالیان پاکستان اور بلاگ آوازپاکستان کے قارئین کو عیدالفطر مبارک ہو

رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے عید کے دن خاص طور سے غریبوں، مسکیوں اور ہمسایوں کا خیال رکھنے کی تاکید فرمائی، اور عید کی خوشی میں شریک کرنے کیلئے صدقہ فطر کا حکم دیا تاکہ وہ نادار جو اپنی ناداری کے باعث اس روز کی خوشی نہیں منا سکتے اب وہ بھی خوشی منا سکیں۔ ہمیں غریبوں ‘یتیموں ‘مسکینوں اور بیواؤں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کرنا چاہیے تاکہ رب کی رحمتیں ہمارا مقدر بنیں۔

ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ’’عید ، اللہ کی جانب سے نازل کردہ عبادات میں سے ایک عبادت ہے ۔رسول اکرم کا ارشاد ہے:’’ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے‘‘۔حضرت ابن عبا س سے روایت ہے کہ نبی محترم نے صدقہ فطر کو مساکین کے کھانے کے لئے مقرر کیاہے۔جو شخص اس کو عید کی نماز سے پہلے ادا کرے تو وہ مقبول صد قہ ہے اور جو نماز کے بعد ادا کرے تو وہ عام صدقہ شمار ہوگا(سنن ابی داؤد)لہٰذا گھر کے تما م زیر کفالت افراد ،ملازمین اور بچوں کی طرف سے عید الفطر کی صبح نماز عید سے قبل صدقہ فطر ادا کر دینا چاہیے جس کا بہترین مصرف آپ کے آس پاس وہ غریب و مسکین خاندان ہیں جن کو دو وقت کو روٹی بھی میسر نہیں جس کی وجہ سے وہ عیدکی لذتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔نہ ان کے پاس کپڑے خریدنے کے لیے پیسے ہوتے ہیں اور نہ ہی مادی ذرائع جنہیں استعمال میں لاتے ہوئے یہ عید کی خوشیوں میں شامل ہو سکتے۔

۔

شمالی وزیرستان: سیکورٹی چیک پوسٹ پر راکٹ حملہ،2 اہلکار ہلاک ،2 زخمی


خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں ایک سیکیورٹی چیک پوسٹ پر راکٹ حملے میں پاک فوج کے 2 اہلکار شہید ہوگئے۔ کے مطابق شہید ہونے والے اہلکاروں کی شناخت حوالدار ظفر اور سپاہی آصف کے نام سے ہوئی۔

بدھ کی رات کو نامعلوم سمت سے فائر ہونے والا یہ میزائل میر علی کے قریب ادیک گاؤں میں ایک چیک پوسٹ پر آ گرا۔

اسلام میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے جو فساد اور دہشت گردی کو مٹانے آیا ہے۔طالبان جہاد نہ کر رہے ہیں بلکہ دہشتگردی پھیلا رہے ہیں۔طالبان ،قرآن اور شریعت کی تعلیمات کے خلاف کام کر رہے ہیں ۔ دہشتگردوں نےملک میں افراتفری اور امن و امان کی صورتحال پیدا کرنے کے لئے دہشتگردی شروع کی ہوئی ہے اور انہیں رمضان کے مدس مہینہ کا بھی خیال نہ ہے۔۔طالبان کا اسلامی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانا یا مسلح جدوجہد کرنا خلاف شریعہ ہے۔ اپنی بات منوانے اور دوسروں کے موقف کو غلط قرار دینے کے لیے اسلام نے ہتھیار اٹھانے کی بحائے دلیل، منطق، گفت و شنید اور پرامن جد و جہد کا راستہ کھلا رکھا ہے۔

ٹانک میں 2 دہشت گرد ہلاک، کرنل مجیب شہید


ڈیرہ اسماعیل خان کے شہر ٹانک میں دہشت گردی کی ایک بڑی کارروائی کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں کرنل مجیب الرحمان شہید ہو گئے جب کہ دو دہشت گرد بھی مارے گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے ٹانک میں خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر آپریشن کیا‘ گھراؤ میں آنے پر دہشت گردوں نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں کرنل مجیب الرحمان شہید ہو گئے۔

مارے جانے والےطالبان دہشت گردوں کے ٹھکانے سے بڑی تعداد میں اسلحہ و گولہ بارود اور مواصلاتی آلات برآمد ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان نے ٹانک میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائی پر فورسز کو خراج تحسین پیش کیا،انھوں نے شہید کرنل مجیب الرحمان کو خراج عقیدت پیش کیا اور ان کے درجات کی بلندی کی دعا کی، ان کا کہنا تھا پوری قوم افواج پاکستان اور سیکیورٹی اداروں کی قربانیوں کی معترف ہے، سیکیورٹی فورسز کی بے مثال قربانیوں کے باعث دہشت گردی کا خاتمہ ہوا، سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں کی بدولت ہی امن کی شمع روشن ہوئی ہے۔

دہشت گردی کی اس کارروائی میں ایک کرنل کی شہادت افسوسناک واقعہ ہے، یہ کارروائی اس امر کی مظہر ہے کہ دہشت گردوں کی ایک تعداد شہروں میں چھپی ہوئی اور اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف عمل ہے۔ فوج کی طرف سے بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں ۔

ایسے میں سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان سمیت ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائیوں کا آغاز کیا اور ان کے مضبوط ٹھکانوں اور نیٹ ورک کو توڑا۔ سیکیورٹی فورسز کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد ماری گئی اور کچھ مختلف علاقوں میں چھپ گئی۔ اب یہ چھپے ہوئے دہشتگرد وقتاً فوقتاً اپنی کارروائیوں کے ذریعے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

تحریک طالبان کی دہشتگردی اور بم دہماکے خلاف اسلام ہے۔طالبان جہادنہ کر رہے ہیں بلکہ اپنے اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دہشتگردوں نےملک میں افراتفری اور امن و امان کی صورتحال پیدا کرنے کے لئے دہشتگردی شروع کی ہوئی ہے۔ اپنی بات منوانے اور دوسروں کے موقف کو غلط قرار دینے کے لیے اسلام نے ہتھیار اٹھانے کی بحائے دلیل، منطق، گفت و شنید اور پرامن جد و جہد کا راستہ کھلا رکھا ہے۔ جو لوگ اس اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ بالعموم جہالت اور عصبیت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بغاوت کے مرتکب ہوتے ہیں۔

سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سرگرم تو ہیں ہی سول اداروں کو بھی امن قائم کرنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیےکو ششوں کو مضبوط بنانا ہو گا۔تمام ادارے مربوط طور پر دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ان دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کی باقیات کیخلاف بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے جو دوسروں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر اس ملک کی سلامتی کیلئے مسلسل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

کیا طالبان نے رسول اکرم کی یہ حدیث نہیں پڑہی، جس میں کہا گیا ہے کہ ”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے؟

طالبان سے امن معاہدہ


طالبان سے امن معاہدہ 

تشدد میں کمی‘ کے معاہدے کا اعلان  جلد ہو جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان میں بات چیت کے ذریعے امن کو موقع دیا جائے۔  تمام سٹیک ہولڈرز کو امن کو ایک موقع دینا ہو گا کیونکہ یہ افغانستان میں آگے بڑھنے کا سب سے بہتر طریقہ ہے گو کہ اس میں نئے خطرے مول لینا ہوں گے۔ وقت آچکا ہے کہ ’جنگ کو ختم کرنے کا سیاسی حل تلاش کیا جائے۔امن سے بڑہ کر کو ئی چیز نہ ہے۔افغانستان کے باشندوں کو جو گذشتہ کئی سالوں سے اس جنگ کی سختیاں جھیل رہے ہیں، جلد ہی امن کو دیکھیں گے۔بات چیت کے علاوہ اور کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔ گزشتہ چالیس برس سے افغانستان میں عدم استحکام کا خمیازہ دونوں پاکستان اور افغانستان یکساں طورپر بھگت رہے ہیں ۔طالبان کے ساتھ عارضی جنگ بندی کا معاہدہ جو افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی راہ ہموار کرسکتا ہے بظاہر بہت امید افزا ہے تاہم اس سے خطرہ ختم نہیں ہوا۔ تمام فریقین کو نیک نیتی سے اس مواہدہ پر عمل کرنا ہو گا۔  افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ مسعود اندرابی نے کہا کہ تشدد میں کمی کے دور کا آغاز آئندہ پانچ دن میں ہو جائے گا جو طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں طے پایا ہے۔ اگر معاہدے کی مدت کے دوران حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو افغانستان میں موجود عالمی افواج اس کا بھرپور جواب دیں گی۔ تاہم ہمیں اس غلط فہمی میں بھی نہیں رہنا چاہیے کہ امریکا کا افغان طالبان کے ساتھ معاہدہ ہوتے ہی امن قائم ہوجائے گا، یقینی طور پر افغانستان میں ایسے جنگجو و سیاسی گروپ بھی موجود ہیں، جو امارات اسلامیہ کے مخالف اور ان کے اپنے فروعی مفادات ہیں، امریکی و افغان طالبان کے درمیان معاہدہ انہیں قبول بھی نہ ہو۔ لہذا اس موقع پردونوں فریقین دور اندیشی سے کام لیں اور افغان مفاہمتی عمل کو ایک بار پھر مُردہ کرنے کی عجلت کو نہ دوہرائے کیونکہ یہ خطے میں تمام ممالک کے حق میں بہتر ہے۔افغانستان میں امن تب ہی ممکن ہو گا جب اس حوالہ سے ہونے والا معاہدہ تمام سٹیک ہولڈرز کو قابل قبول ہو گا۔

باجوڑ، دہشت گردوں کا تعلیمی ادارے میں تباہی کا بڑا منصوبہ سیکورٹی اداروں نے ناکام بنا دیا


ایک رپورٹ کے مطابق باجوڑ میں تباہی کا ایک بڑا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا، طالبان دہشت گردوں کی جانب سے کالج میں نصب بم ناکارہ بنا دیئے گئے۔دہشت گردوں کی جانب سے نجی کالج میں 26 بم نصب کئے گئے تھے اطلاع ملنے پر سیکورٹی اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لیا اور بم ڈسپوزل سکواڈ نے کالج میں لگائے گئے 26 بموں کو ناکارہ بنا دیا، بم ڈسپوزل سکواڈ باجوڑ کے انچارچ صوبیدار احسان اللہ ٹیم کے ہمراہ پہنچے اور باجوڑ کے علاقہ تحصیل خار کے عنایت قعلہ کالج میں دہشت گردوں کی جانب سے نصب بم ناکارہ بنا

سیکورٹی ذرائع کے مطابق دہشت گردوں نے تباہی کا بڑا منصوبہ بنا رکھا تھا جسے ناکام بنا دیا گیا،واقعہ کے بعد علاقے میں‌سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے، دہشت گردوں کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ طالبانائزیشن ایک آ ئیڈیالوجی کا نام ہے اور اس کے ماننے والے وحشی اور درندے طالبان، انتہا پسند،تشدد پسند اور دہشت گرد نظریات و افکار پر یقین رکھتے ہیں اور صرف نام کے مسلمان ہیں، جن کے ہاتھ پاکستان کے معصوم اور بے گناہ شہریوں،طلبا و طالبات، اساتذہ اور ہر شعبہ ہائے ذندگی کے لوگوں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔۔ طالبان اسلام اور شریعت کا دن رات ڈھول پیٹ رہے ہیں مگر اُن کی جہالت

کا سب سے بڑا شاہکار  سکولوں  اور کالجوں کا نذرِ آتش کرنا اور طالبعلموں قتل ہے۔

سکولوں و کالجوں کی تباہی ان طالبان کی قبیح حرکات و کرتوت ہیں جو پاکستان میں تعلیمی اداروں کو تباہ کر کے،طلبا ،اساتذہ و دیگر بے گناہ اور معصوم لوگوں کو قتل کرکے اسلامی نظام نافذ کرنے چلے ہیں۔ طالبان نے پاکستانی مسلمانون کی موجودہ اور آئیندہ نسل کو تعلیمی میدان میں جان بوجھ کر پیچھے کی طرف دھکیل دیا ہے اور جرم عظیم کا ارتکاب کیا ہے۔ سکولوں کو جلانے کے معاملہ میں طالبان کی سرگرمیاں اسلام کے سراسر خلاف ہیں لہذا ہمیں نہیں چاہئے طالبان کا اسلام جس کی تشریح تنگ نظری پر مبنی ہو اور نہ ہی ہم طالبان کو اس امر کی اجازت دیں گے کہ وہ اپنا تنگ نظری والا اسلام ، پاکستان کی مسلمان اکثریت پر مسلط کریں۔ تعلیم کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں پاکستان میں غربت ، پسماندگی ، جہالت اور انتہا پسندی و دہشت گردی جیسے مسائل مزید گھمبیر ہو جائینگے، تعلیم کے فروغ‌ سے ہم پاکستان میں دہشتگردی و انتہا پسندی کی عفریت پر قابو پا سکتےہیں اور لوگ اس بات کو درست طورپرسمجھ سکیں گے کہ خرابی دین اسلام میں نہیں بلکہ اسلام کی اس غیر معقول اور تنگ نظر طالبانی تشریح میں ہے جس کا علاج، بہتر تعلیم سے ہی کیا جاسکتا ہے اور اسی میں پاکستان کی تعمیر و ترقی کی تعبیر مضمر ہے۔

کوئٹہ دھماکے میں ڈی ایس پی امان اللہ شہید سمیت 15افراد شہید


سیٹیلائٹ ٹاﺅن کے علاقے غوث آباد کی مسجد میں  ہونے والے خودکش  دھماکے میں ڈی ایس پی امان اللہ  اور امام مسجد سمیت 15 افراد شہید ہو گئے ہیں ۔

تفصیلات کے مطابق سٹیلائٹ ٹاﺅن کے علاقے غوث آباد میں واقع مسجد میں نماز کے دوران دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی امان اللہ سمیت 15ا فراد کے شہید ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ 20 افراد زخمی ہوئے ہیں جنہیں طبی امداد کیلئے سول ہسپتال منتقل کیا جارہاہے ۔دھماکے میں شہید ہونے والے ڈی ایس پی امان اللہ پولیس ٹریننگ کالج سریاب میں تعینات تھے جو کہ نماز کیلئے مسجد میں موجود تھے ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کر دیاہے ۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے دھماکے کی مذمتک رتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی ہے اور زخمیوں کو ہر ممکن طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایات بھی جاری

کر دی ہیں۔ کالعدم تنظیم داعش نے ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

دہشتگردی، بم دہماکے اور خودکش حملے حرام ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے’’اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب‘‘۔زندگی اللہ کی امانت ہے اور اس میں خیانت کرنا اللہ اور اس کے رسولؐ کے نزدیک ایک بڑا جرم ہے۔ معاشرہ میں فتنہ و فساد پھیلاتےہیں ۔ داعش خوارج بے گناہوں کا خون بہا رہے ہیں۔ کسی بے گناہ کی جان لینا ظلم عظیم ہے جو کسی بے گناہ کو قتل کریں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں ۔ کسی بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ داعش خوارج انسانیت کے دشمن ہیں۔ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔اسلام 32:05ایک بے گناہ فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔( المائدہ

رسول اکرم کا ارشادہے، اللہ کے ساتھ شرک کرنایا کسی کوا قتل کرنا اور والدین کی نا فرمانی کرنا اللہ کے نزدیک گناہ کبیرہ ہے۔ (البخاری)

مساجد کی تباہی اور نمازیوں پر خودکش حملے ایک ناقابل معافی جرم ،انسانیت سوز اور سفاکانہ  داعش کاعمل   ہے۔ داعش کے دہشتگردمعصوم  انسانی جانوں کو اس بے دردی سے اپنی سفاکی کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ ہلاکو اور چنگیز خان  کی روحین بھی تڑپ گئی ہونگی۔ جسے اللہ تعالیٰ کے اتنے مقدس گھر میں خونزریزی کرتے ہوئے کوئی شرمندگی اورڈر محسوس نہ ہو اس کا اللہ تعالیٰ،

اس کےرسول اللہ اور اسلام سے کیا واسطہ ہے؟

قران میں  ارشادہے :

اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے ۔۔۔ ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے ۔
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 114 )
مسجد اللہ کا گھر ہے ۔ مسجد میں اللہ ہی کی عبادت کی جاتی ہے۔

داعش خوارج قاتلوں ،جنونی ،انسانیت کے قاتل اور ٹھگوں کا گروہ ہے جو اسلام کی کوئی خدمت نہ کر رہاہے بلکہ مسلمانوں اور اسلام کی بدنامی کا باعث ہے اور مسلمان حکومتوں کو عدم استحکام میں مبتلا کر رہا ہے۔

سوات، بونیر اور دیگر علاقوں میں دہشت گرد ایک مرتبہ پھر منظم ہورہے ہیں


سوات، بونیر اور دیگر علاقوں میں دہشت گرد ایک مرتبہ پھر منظم ہورہے ہیں

سوات سمیت دیگر علاقوں میں حکومتی رٹ کمزور ہونے کے بعد طالبان دہشت گرد دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کرنے لگے ہیں ان خیالات کاا ظہار اے این پی کے رہنما میاں افتخار حسین نے فیرز شاہ ایڈوکیٹ کی فاتحہ خوانی کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔ میاں افتخار نے کہا کہ حکومت دہشت گردی کی روک تھام میں مکمل ناکام ہوچکی ہے، سوات، بونیر اور دیگر علاقوں میں حکومت کی نااہلی کی وجہ سےطالبان دہشت گرد ایک مرتبہ پھر منظم ہورہی ہیں ، انہوں نے کہا کہ حکومت دہشت گردی کی خاتمے کے لئے موثرپالیسی بنائیں، سوات میں امن ہزاروں قربانیوں کے بعد ملی ہے یہاں پر ٹارگٹ کیلنگ ناقابل برداشت ہے ، میاں افتخار حسین نے مطالبہ کیا کہ فیروز شاہ ایڈوکیٹ کی قاتلوں کو فوری طورپر گرفتارکرکے علاقے میں بے چینی کو دور کیاجائیں۔

اس حملے سے یہ بات بھی ثابت ہو رہی ہے کہ فوجی آپریشنوں کی وجہ سے شدت پسند تنظیمیں کمزور ضرور ہوئی ہے لیکن ان کی حملہ کرنے کی صلاحیت ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ بدستور ملک کے کسی بھی حساس مقام کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

 شدت پسندی پر تحقیق کرنے والے سینیئر تجزیہ کار اور مصنف ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دہشت گرد ایک مرتبہ پھر آرمی پبلک سکول کی طرح ایک اور حملہ کرنا چاہتے تھے لیکن شاید پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے۔
انھوں نے کہا کہ یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ شہروں میں شدت پسندوں کے ’سلپر سیلز‘ بدستور فعال ہے چاہے وہ خیبر پختونخوا اور پنچاب میں ہوں یا ملک کے دیگر حصوں میں۔

ڈاکٹر خادم حسین کے بقول مرکز اور صوبوں کو مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا اور اس کی ذمہ داری لینے ہوگی ورنہ آنے والے دنوں میں پھر سے ایسے واقعات رونما ہوسکتے ہیں

دہشتگر پھرحملہ کر سکتے ہیں۔ دہشتگرد کمزور ضرور ہوئے ہیں مگر ختم نہ ہوئے ہیں۔
ضرب عضب کی کاروائیاں اتنی تیز اور موثر انداز میں کی گئی کہ چند ماہ کے دوران ہی لوگوں کا اعتماد بحال ہوگیا اور ایسا لگ رہا تھا کہ شاید شدت پسندوں کو پھر سے اٹھنے کا موقع نہیں ملے گا۔ ان کاروائیوں کے نتیجے میں ملک بھر میں دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔لیکن حالیہ دنوں میں ایسا تاثر مل رہاتھا کہ شاید دہشتگرد پھر سے منظم ہونے کی کوششوں میں ہیں۔
دہشتگردوں کا وہ نیٹ ورک جس نے قومی اور علاقائی سلامتی کو خطرے میں ڈال رکھا تھا، کافی حد تک بکھر گیا ہے، لیکن مکمل طور پر تباہ نہیں ہوا ہے۔ اب بھی ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں سے مزاحمت ہورہی ہے، اور دہشتگرد اپنے ان ٹھکانوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جبکہ کئی نے افغان سرحد کے دوسری جانب پناہ لے لی ہے۔فوجی آپریشن کے نتیجے میں ملک میں دہشتگردوں کی پرتشدد کارروائیوں میں انتہائی کمی آ چکی ہے۔پاکستان کے لئے یہ عملی طور پر ممکن نہ ہے کہ وہ ملک کے چپہ چپہ پر فوجی کھڑے کر دے۔.
سوات میں اِس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی ہے، پاکستان کے اندر اِس تنظیم کا نیٹ ورک توڑ دیا گیا ہے، جن علاقوں سے یہ تنظیم آپریٹ کر رہی تھی، وہاں بھی اب اس کا وجود نہیں، اِس تنظیم کی اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی تباہ و برباد کی جا چکی ہیں اور اب اس کے ارکان تتر بتر ہیں۔ ضرب عضب کاروائیاں اتنی تیز اور موثر انداز میں کی گئی کہ چند ماہ کے دوران ہی لوگوں کا اعتماد بحال ہوگیا اور ایسا لگ رہا تھا کہ شاید شدت پسندوں کو پھر سے اٹھنے کا موقع نہیں ملے گا۔ ان کاروائیوں کے نتیجے میں ملک بھر میں دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کو  اپنے دہشتگردانہ ایجنڈے کی تکمیل کے لئے داخلی طور پر مختلف شہروں، دہاتوں،قصبوں اور فاٹا کے دورافتادہ اور شہروں سے ملحقہ ’’خفیہ ٹھکانوں‘‘ سے افرادی ، رہائشی اورلاجسٹک سپورٹ ملتی رہتی ہے، جس کی وجہ سے دہشتگردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔

سانحہ اے پی ایس کی 5 ویں برسی


سانحہ اے پی ایس کی 5 ویں برسی

پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان کے دہشت گرد حملے کو5 سال بیت گئے، سفاک حملہ آوروں نے اسکول پرنسپل طاہرہ قاضی سمیت 150 کے قریب طلبہ اور اساتذہ کو شہید کیا تھا۔

اس سانحے نے پوری قوم کو دہشت گردی کا ناسور ختم کرنے کے لیے متحد کیا اور سیکورٹی اداروں نے کامیاب کارروائیاں کرکے وطن کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔

 پاکستان کی تاریخ میں 16 دسمبر 2014 وہ بدقسمت دن تھاجس نے ہر محب وطن پاکستانی کو دلگیر و اشکبار کیا، یہ وہ دن تھا جس کا سورج حسین تمناؤں اور دلفریب ارمانوں کے ساتھ طلوع ہوا، مگر غروب 132 معصوم و بے قصور بچوں کے لہو کے ساتھ ہوا۔

صبح دس سے ساڑھے دس بجے کے درمیان7 دہشت گرد اسکول کے قریب پہنچے اور اپنی گاڑی کو نذر آتش کیا۔ اس کے بعد سیڑھی لگا کر اسکول کے عقبی حصہ میں داخل ہوئے اور معصوم طالب علموں اور بےگناہ اساتذہ پر اندھادھند فائرنگ کی۔

سفاک دہشت گرد ایف سی کی وردیاں پہن کر اسکول میں داخل ہوئے، انسانیت سے سارے ناطے توڑ کر درندگی کو گلے لگانے والوں نے اسکول کے مرکزی ہال اور کلاس رومز میں گھس کر ان کلیوں کو بے دردی سے مسل ڈالا جو ابھی  کِھل بھی نہ پائی تھیں۔

واقعے میں ا سکول پرنسپل طاہرہ قاضی بھی دیگر کئی اساتذہ کے ساتھ شہید ہوئیں اور ہمیشہ کیلئے امر ہوگئی۔ حملے میں 2 دہشت گردوں نے خود کو دھماکے سے اڑالیا تھا۔ اے پی ایس پر لگے زخم نے حکومت وقت کو نیشنل ایکشن پلان ترتیب دینے اور کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو از سر نو فعال کرنے جیسے اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا۔

انہی اقدامات کے نتیجے میں دہشت گردوں کو نشان عبرت بنانے کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا، بلاشبہ اے پی ایس کے 132 بچوں سمیت  150 فرزندان وطن نے اپنے لہو سے وہ شمع روشن کی جس کی لو آج بھی تازہ و غیر متزلزل ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ اے پی ایس پشاور میں ہونے والا قتل عام کبھی نہیں بھولیں گے، 5 دہشت گردوں کو ملٹری کورٹس کے ذریعے تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے شہداء کی پانچویں برسی کے موقع پر اپنے ایک بیان میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سانحہ کے شہداء اور ان کے اہل خانہ کو سلام پیش کیا اور کہا کہ متحد ہو کر پاکستان کے پائیدار امن اور خوشحالی کی طرف گامزن ہیں۔

سانحہ پشاور کے کرب سے گزرنے والی ماؤں کے حوصلے آج بھی بلند ہیں۔ سانحہ آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں نے اپنے خون سے تاریخ رقم کی ان کا خون رائیگاں نہیں جائیگا۔ قوموں کی زندگیوں میں بجا طور پر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو ان ترجٰیحات کو بدل ڈالتے ہیں۔ سانحہ پشاور کو بھی اس سرزمین پر دہشت گردی کی ایسی کاروائی سے منسوب کیا گیا جس نے انتہاپسندی کے عفریت کو پوری طرح نے نقاب کر کے رکھ ڈالا۔ اس ضمن میں سیاسی اور عسکری قیادت نے متفقہ طور پر دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے اس پختہ عزم کا اظہار کیا جس کی ایک جھلک کسی نہ کسی شکل میں اب بھی نظر آرہی۔ اس میں شک نہیں کہ انتہاپسندی کے خلاف جن بیس نکات کو منظور کیا گیا اس پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوسکا مگر حکومت پر بجا طور پر یہ دباو موجود ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمہ کے مذید موثر اقدامات اٹھائے۔

طالبان قران کی زبان میں مسلسل فساد فی الأرض کےمرتکب ہو رہے ہیں۔معصوم شہری ، بے گناہ اور جنگ میں ملوث نہ ہونے والے تمام افراد ، نیز عورتیں اور بچوں کے خلاف حملہ "دہشت گردی ہے جہاد نہیں”۔۔۔۔۔ایسا کرنے والاجہنمی ہے اور ان کے اس عمل کو جہاد کا نام نہیں‌دیا جاسکتا ۔ اسلامی شریعہ کے مطابق عورتوں اور بچوں کا قتل باقاعدہ جنگ میں میں بھی منع ہے۔طالبان نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی انسان بلکہ انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔
آج کے دن پوری پاکستانی قوم اس عزم کودہرائے گی کہ ہم دہشت گردی کی کسی بھی صورت کو برداشت نہ کریں گے ۔آج کے دن ہمیں تمام دنیاکویہ پیغام دیناچاہیں گے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوارکی مانندہیں اس قوم کاہرجوان،ہربزرگ،ہرخاتون اورہربچہ دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے میں اپنے کردارکیلئے پرعزم ہے پوری قوم اپنی بہادراورجری افواج کی پشت پرہے۔ تمام پاکستانییوں کی ہمدردیاں شہیدہونے والوں کے ورثاء کے ساتھ ہیں ان میں ہرایک کاغم ان کاذاتی نہیں پوری قوم کاغم ہے شہیدہونے والے بچے اوراساتذہ اس ملک اور قوم کاقیمتی سرمایہ تھے ،ہیں اورتاقیامت رہیں گے۔

گاجر کا حلوہ


گاجر کا حلوہ

گاجر کا حلوہ بر صغیر ہندو پاک کے ہر خاص و عام کی پسند ہے۔ یہ مغلیہ دور میں مغلیہ دربار کا پسندیدہ میٹھا ہوتا تھا۔ سردیوں میں گرم گرم گاجر کا حلوہ ایک عجب مزہ دیتا ہے۔

گاجر کا حلوہ گھر میں بنانے کی آسان ترکیب

اجزا:

کدوکش گاجر۔۔۔2 کلو

چینی۔۔۔1-2/1 کپ

ہر ی الائچی۔۔۔10 عدد

پگھلا ہوا گھی۔۔۔2/1 کپ

کھویا۔۔۔500 گرام یا 2 کپ

بادام ، پستے سلائس۔۔۔4 کھانے کے چمچے

ترکیب:

ایک پین میں 2 کلو کدوکش گاجر اور 1-2/1 کپ چینی ڈال کر ہا تھ سے اچھی طرح مکس کریں۔ اب اس میں 10 عدد ہر الائچی ڈال کر ڈھکیں اور پکالیں۔ پانی خشک ہو جائے تو اس میں 2/1 کپ پگھلا ہوا گھی ڈال کر 10 منٹ کیلئے اچھی طرح فرائی کر لیں، یہاں تک کہ پانی اچھی طرح خشک ہو جائے۔پھر اسے چولہے سے اتار کر 500 گرام یا 2 کپ کھویا شامل کر کے اس پر فوراً حلوہ ڈالیں اور 15 منٹ کیلئے چھوڑ دیں ۔ آخر میں اسے اچھی طرح مکس کر کے سرو کر یں۔مزیدار

گرما گرم گاجر کا حلوہ تیار ہے۔

پاکستانی طالبان کی دہشتگردی


 پاکستانی طالبان کی دہشتگردی

ایک وقت تھا کہ پورا پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا ۔طالبان دہشت گرد جہاں چاہتے اور جس طرح کے ٹارگٹ کو چاہتے اپنے نشانے پر رکھ لیتے ۔طاقت کے نشے میں چور ، دہشت گردانہ عزائم رکھنے والے طالبان  نے اپنے ہی بھائیوں کو نشانے پر رکھ لیا تھا ۔اسلام کا نام لے کر نہتے لوگوں اور اپنے ملک کے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے خلاف ’’جہاد‘‘کا اعلان کردیاگیاجوکہ اصل میں فساد فی الارض تھا۔قانون نافذ کرنیوالے ادارے، اسپتال، ہوٹل، مزار، مساجد غرض کوئی علاقہ بھی دہشتگردی سے بچا ہوا نہیں تھا۔ ان دہشتگردوں کیخلاف ایک عشرے سے زائد سیکیورٹی  فورسز اپنی پوری تندہی و طاقت سے برسرپیکاررہے ۔اب کچھ عرصہ سے جب سیکیورٹی اداروں نے محسوس کیا ہے کہ دہشتگرد تعداد میں کم ہوچکے ہیں اور ان کی طاقت کا محورختم ہوچکا ہے تو دیگر مسائل پر توجہ دی جارہی ہے۔ طالبان دہشتگرد اب سرحد پار بھاگ گئے ہیں اور  ان کے باقیات آئے دن سرحدی اور  شہری علاقوں میں  دہشتگردانہ حملے کرتے رہتے ہیں۔ طالبان اسلام کے  مقدس نام کو بدنام کر رہے ہیں۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں صرف وہ ہی مسلمان ہیں اور باقی سب کافر بستے ہیں ،اس لئے وہ سب دوسرے مسلمانوں کا قتل جائز سمجھتے ہیں۔ مزید براں طالبان پاکستان کے موجودہ سیاسی اور سماجی نظام و ڈہانچےکو غیر اسلامی سمجھتے ہیں اور اس سیاسی و سماجی ڈہانچے کو بزور طاقت گرانے کے خواہاں ہیں۔ طالبان جمہوریت کو بھی غیر اسلامی گردانتے ہیں جبکہ مفتی اعظم دیو بند کا خیال ہے کہ طالبان اسلامی اصولوں کو مکمل طور پر نہ سمجھتے ہیں۔ کیا طالبان نے رسول اکرم کی یہ حدیث نہیں پڑہی، جس میں کہا گیا ہے کہ ”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے؟

جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔(المائدۃ۔۳۲ )

پاکستان دنیا کا ایک حسين وجميل ملك