شاعری


 

انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی                                     قتیل شفائی
تم کیا سمجھو تم کیا جانو بات میری تنہائی کی

کون سیاہی گھول رہا تھا وقت کے بہتے دریا میں
میں نے آنکھ جھکی دیکھی ہے آج کسی ہرجائی کی

وصل کی رات نہ جانے کیوں اصرار تھا ان کو جانے پر
وقت سے پہلے دوب گئے تاروں نے بڑی دانائی کی

اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی

اب کے رت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کون : احمد فراز

اب کے رت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کون
زخم پھولوں کی طرح مہکیں گے پر دیکھے گا کون

دیکھنا سب رقص بسمل میں مگن ہو جائیں گے
جس طرف سے تیر آئے گا ادھر دیکھے گا کون

زخم جتنے بھی تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے
تیرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر دیکھے گا کون

وہ ہوس ہو یا وفا ہو بات محرومی کی ہے
لوگ تو پھل پھول دیکھیں گے شجر دیکھے گا کون

ہم چراغ شب ہی جب ٹھہرے تو پھر کیا سوچنا
رات تھی کس کا مقدر اور سحر دیکھے گا کون

ہر کوئی اپنی ہوا میں مست پھرتا ہے فراز
شہر نا پرساں میں تیری چشم تر دیکھے گا کون

اے روشنیوں‌کے شہر : فیض احمد فیض

سبزہ سبزہ، سوکھ رہی ہے پھیکی، زرد دوپہر
دیواروں‌کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور افق تک گھٹتی، بڑھتی ، اُٹھتی، گرتی رہتی ہے
کہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا ہے اس کہر کے پیچھے روشنیوں کا شہر

اے روشنیوں کے شہر
کون کہے کس سمت ہے تیری روشنیوں کی راہ
ہر جانب بے نور کھڑی ہے ہجر کی شہر پناہ
تھک کر ہر سو بیٹھ رہی ہے شوق کی ماند سپاہ

آج مرا دل فکر میں ہے
اے روشنیوں کے شہر

شب خوں سے منھ پھیر نہ جائے ارمانوں کی رو
خیر ہو تیری لیلاؤں کی، ان سب سے کہہ دو
آج کی شب جب دیئے جلائیں، اونچی رکھیں لو

“شاعری” پر 2 تبصرے

تبصرہ کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

پاکستان دنیا کا ایک حسين وجميل ملك