لاہور کا میلہ چراغاں


لاہور کا میلہ چراغاں

-
میلہ چراغاں پنجابی صوفی شاعر شاہ حسین کے عرس کی تین روزہ تقاریب کا نام ہے۔ یہ تقاریب شاہ حسین کے مزار، واقع باغبانپورہ کے قریبی علاقوں میں منعقد ہوتی ہیں۔یہ عرس ہر سال مارچ کے آخری ہفتہ اور اتوار کو منایا جاتا ہے عقیدت مند مزار پر چادریں اور پھول چڑھانے کے ساتھ چراغاں بھی کرتے ہیں اس لئے اسے میلہ چراغاں کہا جاتا ہے کسی زمانے میں یہ میلہ شالامار باغ کے اندر لگتا تھا۔ اس لئے یہ میلہ شالامار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے لوگ دھمال، چراغاں اور دوسرے طریقوں کے ذریعے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔

-

لاہور شاہ حسین المعروف مادھو لال حسین کو صوفیانہ شاعری کا دوسرا بڑا ستون گردانا جاتا ہے۔ شاہ حسین کے عرس کو میلہ چراغاں اور میلہ شالامار بھی کہا جاتا ہے۔ ماضی قریب تک یہ میلہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا کلچرل فیسٹول گردانا جاتا تھا۔ سن 1538 میں اندرون لاہور پیدا ہونے والے مست الست صوفی شاعر شاہ حسین نے اپنی کافیوں کی بنیاد راگ راگنیوں پر رکھی۔ شاہ حسین کا کلام ہر اس دل کی دھڑکنیں تیز کر دیتا ہے،جس میں رتی بھر بھی عشق کا جذبہ موجود ہو۔ زندگی کے پہلے 36 سال کٹھن ریاضت میں گزارنے والے اس صوفی کے آخری 27 برس عالم مستی میں گزرے۔
دُکھاں دی روٹی سولاں دا سالن آہیں دا بالن بال نی
مائیں نی میں کینوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی
نی سیو! اسیں نیناں دے آکھے لگے۔
جیہناں پاک نگاہاں ہوئیاں، کہیں نہیں جاندے ٹھگے
کالے پٹ نہ چڑھے سفیدی، کاگ نہ تھیندے بگے
شاہ حسین شہادت پائین، مرن جو مِتراں دے اگے
)شاہ حسین(

“میلہ چراغاں لاہور کا وہ ثقافتی، تہذیبی اور صوفیانہ ورثہ ہے جو زمانے کے تند و تیز طوفانوں میں بھی قائم و دائم ہے۔ میلہ چراغاں لاہور کی ایسی روایت ہے جس کے راوی بے شمار ہیں۔”)پروفیسر سید اسرار بخاری

لاہور کے بارے میں مشہور ہے کہ دن سات اور میلے آٹھ ! اس شہر کا تمدن موج میلے سے عبارت ہے، وہ جشن بسنت ہو، میلہ چراغاں ہو، عرس میلے ہوں یا موسیقی کی محفلیں۔ ایک زمانے میں شہر میں مراتھوں کا میلہ بھی لگتا تھا۔
(لاہور کے میلے از عمید ملک)

-
شاہ حسینؒ اکبری عہد کے جلیل القدر صوفی اور عظیم الفکر عالم دین تھے۔ اُن کے علوم کی دھوم پورے ہندوستان میں مچی ہوئی تھی۔ شاہ حسین المعروف مادھو لال حسین کو صوفیانہ شاعری کا دوسرا بڑا ستون گردانا جاتا ہے.شاہ حسین کے عرس کو میلہ چراغاں اور میلہ شالامار بھی کہا جاتا ہے۔ ماضی قریب تک یہ میلہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا کلچرل فیسٹول گردانا جاتا تھا۔ مادھولال حسین کے عرس پر ملک بھر سے ملنگ جمع ہوتے ہیں اور اس میلے کو ملنگوں کا سب سے بڑا اجتماع کہا جاتا ہے۔پنجابی شاعری میں کافیوں کی بنیاد رکھنے والے عظیم صوفی شاعر شاہ حسین کے 415ویں عرس کی تقریبات آج سے لاہورمیں شروع ہوگئی ہیں۔
سن 1538 میں اندرون لاہور پیدا ہونے والے مست الست صوفی شاعر شاہ حسین نے اپنی کافیوں کی بنیاد راگ راگنیوں پر رکھی۔ شاہ حسین کا کلام ہر اس دل کی دھڑکنیں تیز کر دیتا ہے،جس میں رتی بھر بھی عشق کا جذبہ موجود ہو۔یہ میلہ کب اور کیوں شروع ہوا اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اس بات کے شواہد ضرور ملتے ہیں کہ متحدہ ہندوستان میں سکھوں کے دور میں بھی یہ میلہ منایا جاتا تھا۔

AF8D8019-5C6E-4BDC-A1BD-32D1E07A27B5_w640_r1_s
راجہ رنجیت سنگھ خود اپنے درباریوں کے ساتھ اس میلے میں شریک ہوتا تھا۔ اور باغبانپورہ میں شاہ حسین کے دربار پر گیارہ سو روپے اور ایک جوڑا بسنتی چادروں کا چڑہاوے کے طور پر دیا کرتا تھا۔
یہ میلہ موسم بہار کی آمد کی خوشی میں منایا جاتا تھا۔ تقسیم ہند سے قبل اس میلے میں شرکت کرنے والے لوگوں کی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میلے کا پھیلاؤ دہلی دروازے سے لے کر شالامار باغ تک ہوا کرتا تھااور زائرین کی کثیر تعداد شاہ حسین کے مزار پر چراغ جلایا کرتی تھی اور منتیں مانا کرتی تھی۔ اسی مناسبت سے اس کا نام میلہ چراغاں پڑ گیا۔
شاہ حسین کا عرس ہر سال رجب کی پہلی تاریخ کو ہوا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ عرس اور میلہ ایک ہی وقت میں اکٹھے ہو گئے تب سے اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ عرس اور میلہ ہمیشہ اکٹھے ہی منائے جائیں گے اور اس مقصد کے لئے مارچ کا آخری ہفتہ مختص کیا گیا۔
اس موقع پر شاہ حسین کے بارے میں مختصراً بتاتا چلوں کہ وہ سلسلہ قادریہ سے فیض یاب ہوئے اور زندگی کے اولین چھتیس سال شریعت کے مطابق اور زہدو عبادت میں گزارے۔
ایک روز قرآن کی تفسیر پڑھتے ہوئے اس آیت پر پہنچے ترجمہ ’دنیا ایک کھیل کود کے سوا کچھ نہیں‘ اس آیت کا شاہ حسین پر ایسا اثر ہوا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لال کپڑے پہن، داڑھی مونچھ منڈوا کر گانا بجانا اور پینا پلانا شروع کر دیا اور فقیروں کے ملامتیہ فرقے میں شامل ہو گئے اور زندگی کے بقیہ ستائیس برس جذب و سکر کی حالت میں گزارے۔

80026_big
اسی دور میں شاہ حسین کو ایک برہمن ہندو لڑکے مادھو لال سے عشق ہو گیا اسی عشق کی وجہ سے لوگ شاہ حسین کو شاہ حسین کی بجائے مادھو لال حسین کہنے لگے۔ مادھو نےبھی سر تسلیم خم کیا اور باقی تمام عمر شاہ حسین کی مریدی میں گزار دی۔
راوی لکھتا ہے کہ ایک روزشاہ حسین اسی جذب و مستی کی حالت میں چھت سے گرے اور داعئی عدم ہو گئے۔ شاہ حسین کو پہلے مادھو لال نے اپنے علاقے شاہدرے میں دفنایا مگر (شاہ حسین کی پیشین گوئی کے مطابق) بارہ برس بعد سن سولہ سو تیرہ میں جب دریائے راوی نے اپنا رخ بدلا تو مادھو لال نے شاہ حسین کو شاہدرے سے نکال کر باغبانپورہ میں دفن کیا اور اپنی باقی ماندہ زندگی مزار کی مجاوری میں گزار دی۔ اور جب مادھو سن سولہ سو چھتیس میں فوت ہوا تو اس کی قبر بھی شاہ حسین کے برابر میں بنائی گئی۔
شروع سے لے کر سن انیس سو پچاس تک میلہ چراغاں یا مادھو لال حسین(شاہ حسین) کا عرس شالا مار باغ میں ہوا کرتا تھا مگر بعد میں شالا مار باغ کی تخریب کو مد نظر رکھتے ہوئے میلے کو جی ٹی روڈ اور باغبانپورہ تک محدود کر دیا گیا۔

-
ہمیشہ کی طرح اس سال بھی ستائیس، اٹھائیس اور انتیس مارچ کو میلہ چراغاں منایا جائے گا جو شاہ حسین کا چار سو سولہواں عرس بھی ہے۔ اس سال بھی میلے کے آغاز کے ساتھ ہی مداری،سرکس والے، ڈھولچی، ناچے، مٹھائی والے اور دیگر دکانوں والے وہاں اپنے کاروبار کے اڈے جما لیتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق آٹھ سے دس ہزار لوگوں کا روزگار اس میلے سے وابستہ ہوتا ہے۔ یہ میلہ عوام کو محض تفریح فراہم نہیں کرتا اورنہ ہی خالصتاً عرس کی طرح منایا جاتا ہے بلکہ تجارتی مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو)
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2004/04/040402_mela_chiraghan_si.shtml