دولتِ اسلامیہ‘ کا حملہ کیا خطرے کی گھنٹی ہے؟


index

دولتِ اسلامیہ‘ کا حملہ کیا خطرے کی گھنٹی ہے؟
پاکستان کے قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی میں مقامی حکام کے مطابق اتوار کے روز ایک حملے میں تین سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
اس حملے کے بارے میں غیرمعمولی بات گزشتہ دنوں قائم کی جانے والی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ یا داعش کا اس کی ذمہ داری قبول کرنا ہے۔ تو کیا اس کا متحرک ہونا پاکستان کے لیے کتنے بڑے خطرے کی گھنٹی ہے؟

AA4C6C72-99F1-466B-8FE0-8C22F7B55405_mw1024_n_s-660x330

اس سال جنوری کے اوائل میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدہ ہونے والے چند شدت پسندوں کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے لیے داعش کے قیام کا اعلان ایک ویڈیو جاری کر کے کیا گیا تھا۔ لیکن اِس کے بعد سے یہ نئی تنظیم خاموش رہی۔ ماہرین کے خیال میں وہ انتظامی معاملات سے جن میں وسائل کا حصول بھی شامل ہے اب تک نمٹ رہی تھی۔

pic_giant_071414_SM_Abu-Bakr-al-Baghdadi
شدت پسندی کے امور کے ماہر خادم حسین کی بھی یہی رائے ہے۔’اس تاخیر کی وجہ اس تنظیم کی ساخت اور اسے نیٹ ورک کے پھیلنے میں جو وقت لگتا ہے یہ وہ تاخیر ہے۔‘
ان انتظامی امور میں سب سے اہم متوقع مالی امدد کا عراق یا شام سے آنا تھی جس میں ماہرین کے بقول تاخیر ہو رہی ہے۔ افغان صحافی سمی یوسفزئی کہتے ہیں کہ دولت اسلامیہ کی ترجیع اس وقت پاکستان اور افغانستان نہیں ہے۔’ان کو شاید امید تھی کہ دولت اسلامیہ کے ہیڈکواٹر سے کوئی مدد ملے گی لیکن داعش عراق اور شام میں کافی مصروف ہے اور تمام وسائل اسی پر خرچ کر رہے ہیں۔ فل الحال اس کی اس خطے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘
بعض لوگوں کے خیال میں اورکزئی میں حملہ شاید ایک عاد ہی ہو لیکن اس سے آنکھیں موڑی نہیں جا سکتی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سابق سینٹر حاجی محمد عدیل کہتے ہیں کہ حکومت کا ماننا ہے کہ اس تنظیم کا افغانستان کے بعض علاقوں میں کچھ اثر و رسوخ ہے۔ ’خطرے کی بات تو یہی ہے کہ کہیں وہاں کا اثر یہاں تو نہیں آنا شروع ہو جائے گا۔ یہ تنظیم ایک خطرہ بن سکتی ہے۔‘
افغانستان میں اس نئی تنظیم کو قیام کے فوراً بعد شدید نقصان اس کے ہلمند میں موجود نائب رہنما ملا عبدالروف کی ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت تھی۔
طاہر خان کہتے ہیں کہ افغانستان کے بعض علاقوں میں ان کی جانب سے سیاہ پرچم آویزاں کرنے کی خبریں ملی ہیں لیکن کوئی بڑا حملہ ابھی وہاں بھی نہیں کیا گیا ہے۔ ’افغانستان میں عام تاثر یہ ہے کہ ہزارہ قوم کے بعض افراد کے اغوا کے پیچھے اس تنظیم کا ہاتھ ہو لیکن اس کی انھوں نے ابھی تک ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
طاہر خان کے خیال میں افغان طالبان رہنما ملا محمد عمر کی سوانح عمری کے جاری کرنے کا مقصد بھی تحریک کے اندر بڑھتی ہوئی ناامیدی پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ اپنے جنگجوں کو دولت اسلامیہ میں جانے سے روکنا ہوسکتا ہے۔
’ملا محمد عمر کو 2002 کے بعد سے کسی نے نہیں دیکھا ہے۔ اس سے تحریک کے اندر گوما گو کی کیفیت ہے اور بہت سے لوگ جن میں ازبکستان اسلامی تنظیم نے بھی شامل ہے نے اسی کو وجہ بتا کر طالبان سے علیدگی اور دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔‘
حکومت کی جانب سے دولت اسلامیہ کے وجود سے میڈیا کی سطح پر مسلسل انکار ہو رہا ہے لیکن داخلی اطلاعات کے مطابق قومی ایکشن پلان میں اسے بھی ایک خطرے کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔
بی بی سی پشتو کے نامہ نگار طاہر خان نے بتایا کہ گزشتہ دنوں پالیسی مشاورت کے ایک اجلاس میں بتایا گیا کہ حکومت دولت اسلامیہ کو بھی ایک خطرے کے طور پر مان رہی ہے۔
حکومت نے گزشتہ برس قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں تمام شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کا بھرپور آغاز کیا۔ اب اس کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان جیسی مرکزی تنظیم کے خاتمے کے ساتھ ہی دولت اسلامیہ کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے گزشتہ دنوں بی بی سی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ اگر وہ طالبان کے مسئلے کو حل کر لیتے ہیں تو ان کے خیال میں کوئی اور دھڑا یہاں نہیں پنپ سکے گا۔ ’آپ جو بھی نام دے دیں یہ لوگ تو ایک ہی ہیں نہ۔‘
شدت پسندی کے ڈسے ہوئے پاکستان کے لیے ماہرین کے بقول بہتر یہی ہے وہ اس سے آغاز میں ہی نمٹے ورنہ یہ تیزی سے شدت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں پھیل سکتی ہے۔
(بشکریہ بی بی سی اردو)
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2015/04/150406_orkzai_isis_atk

imagesbb

پاکستان کو داعش کےحقیقی  خطرہ کا ادراک ہونا چاہئیے کیونکہ یہ عفریت پہلے ہی عراق و شام کواپنی آگ کی لپیٹ میں لے چکی ہے جہان پر داعش انسانیت کے خلاف جرائمز اور وار کرائمز میں ملوث ہیں۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دہنسنے سے خطرہ ختم نہ ہو جائے گا۔ عراق اور شام میں دہشتگرد گروہ داعش کے مظالم اسلامی تعلیمات اور اسلامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں ۔ پاکستان میں پہلے ہی دہشتگردوں کی کچھ کمی نہ ہے کہ اب داعش کے دہشتگرد بھی آن موجود ہوئے ہیں۔

images

پوری دنیا کے ایک سو بیس سے زیادہ علمائے اسلام اور مفتیان کرام نے بنیاد پرست گروہ "دولت اسلامیہ” کے سربراہ ابوبکر البغدادی، ان کے پیروکاروں اور جنگجو تحریک کے نام ایک کھلا پیغام بھیجا ہے جس میں ان کی سرگرمیوں کو تفصیل کے ساتھ اسلام کے خلاف قرار دیا ہے اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دہشت گردی ختم کر دیں۔
مذہبی رہنماؤں کا یہ خط چیچن ریپبلک کے سربراہ کی ویب سائٹ پر انگریزی اور عربی زبانوں میں جاری کیا گیا ہے۔ علمائے اسلام نے یاد دلایا ہے کہ اسلام میں کسی شخص کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا، لوگوں پہ ظلم نہیں ڈھایا جاتا، بے قصور افراد کو قتل نہیں کیا جاتا،عورتوں اور بچوں کے حقوق غصب نہیں کیے جاتے، قبروں کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا اور غلامی کو رواج نہیں دیا جا سکتا۔ اس پیغام میں علیحدہ طور پر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسلام "اہل کتاب کو بلاقصور نقصان نہیں پہنچایا جاتا”۔

index
مصر کی سب سے بڑی دینی درسگاہ جامعہ الازھر نے شام اور عراق میں اپنی الگ سے ریاست قائم کرنے والی شدت پسند تنظیم دولت اسلامی’’داعش‘‘ کے تکفیری افکار و نظریات کو خلاف اسلام قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ “داعش ایک خونخوار اور انسان دشمن تنظیم ہے، اس کے جرائم کا دین اسلام کی تعلیمات سے دور دور تک بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔”
نائجیریا کےمفتی اعظم الشیخ ابراہیم صالح الحسینی کے جامعہ الازھر میں منعقدہ کانفرنس کے دوران دیے گیے لیکچر کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں انہوں نے بھی دہشت گردی کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دیتے ہوئے یہ واضح کیا تھا کہ ’’داعش‘‘ کے جنگی جرائم کا اسلام اور اہل اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ جس نوعیت کے ہتھکنڈے داعشی استعمال کر رہے ہیں وہ کسی مسلمان کے شایان شان نہیں ہو سکتے۔
نائیجیریا کے مفتی اعظم نے اپنی تقریر میں داعش کی کھلے الفاظ میں تکفیر تو نہیں کی تاہم انہوں نے کہا کہ انتہا پسند تنظیمیں بالخصوص اسلامی خلافت کی دعویدار داعش نے خود کو اسلام کا باغی گروپ ثابت کیا ہے جو صرف لوٹ مار، قتل وغارت گری اور کشت و خون پریقین رکھتی ہے۔ تکفیری نظریات کو عام کرتی اور بے گناہ انسانوں کا خون بہاتی ہے۔ ایک مسلمان کے خلاف اعلان جنگ بدعتی خوارج کے نظریات ہو سکتے ہیں لیکن ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام میں اپنے مسلمان بھائی کےخلاف تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں۔

اسلامی محقق اور اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر پروفیسر قبلہ ایاز نے کہا کہ شریعت اور اسلام کے احکامات کے مطابق الداعش اور اس کے پیرو کار خوارج ہیں۔ خوارج کی اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو نظام اور/یا اسلام کے خلاف بغاوت کرتے ہیں۔

داعش کے جنگجوؤں نے عراق کے قدیمی شہر ہترہ کو مسمار کر دیا ہے۔ داعش کی جانب سے جاری ویڈیو میں شدت پسندوں کو عراق کے آثار قدیمہ کے مشہور شہر ہترہ کی دیواروں کو ہتھوڑے مار کر جب کہ نایاب مجسموں کو رائفل سے نشانہ بنا کر تباہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ بعض ذرایع کے مطابق داعش نے کچھ نایاب چیزیں بلیک مارکیٹ میں فروخت کی ہیں ۔ جس کا مقصد اپنے عزائم کے فروغ کے لیے رقوم اکٹھی کرنا ہے۔داعش نے کچھ عرصہ قبل قدیم تاریخی علاقے نمرود کو بھی تباہ کر دیا تھا۔داعش اپنے نظریات کے مطابق تاریخ کی ہر علامت کو مٹانے کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی اداروں کو بھی تباہ کر رہی ہے اس طرح وہ اپنے ان عاقبت نااندیشانہ اقدامات کی بدولت عراقی معاشرے کا تعلق نہ صرف اپنی قدیم تہذیب سے ختم کر رہی ہے بلکہ جدید سائنسی اداروں کو تباہ کرکے انھیں جہالت کے اندھیروں میں دھکیل رہی ہے۔

رطانوی اخبار ’’ڈیلی ٹیلیگراف‘‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا  ہے کہ شام میں داعش کی صفوں میں شامل دہشت گرد نے ایک خاندان کے بچوں اور بڑوں کو ایک قطار میں‌ کھڑا کر کے ان کے سر تن سے جدا کرنے کے بعد اسکول کے در و دیوار پر لٹکا کر بدترین درندگی کا مظاہرہ کیا۔ یہ مطالم حدیث رسول کریم کے منافی ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ داعش ایک تکفیری گروہ ہے اور اس کا اہل سنت سے کو ئی تعلق نہ ہے۔شام اور عراق میں قابض داعش نے حضرت یونس علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کے مزارات سمیت اب تک پینتالیس مزارات کو تباہ کر دیا ہے، جن میں مساجد اور امام بارگاہوں سمیت اصحاب رسول اور اولیا ء اللہ کے مزارات بھی شامل ہیں۔ داعش جو خود کو ’’سنی جماعت‘‘ کہلواتی تھی اب اس کے ان اقدامات نے اُس کی حقیقت کو واضح کر دیا ہے۔ کون ایسا مسلمان یا سنی ہے جو انبیا کرام علیہ السلام اور اصحاب رسول کے مزارات کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے۔اور اسی دہشت گرد تنظیم نے اب تک 12 سے زائد سنی علماء کوبھی شہید کر دیا ہے جنہوں نے ان کے اس ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی۔اس تنظیم کے ان اقدامات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ان کا اصل مقصد فتنہ اور فساد کے سوا کچھ نہیں۔

کسی بھی انسا ن کی نا حق جان لینا اسلام میں حرام ہے۔ دہشت گردی قابل مذمت ہے، اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔اسلام میں فتنے کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔کسی بے گناہ کی طرف آلہ قتل سے اشارہ تک کرنا منع کیا گیاہے .دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں یہ بھی مسلم ہے۔ اور نہ ہی کوئی مذہب اس کی اجازت دے سکتا ہے.
دنیا کی کوئی ریاست مسلح عسکریت پسندوں و دہشت گردوں کو اس بات کی اجازت نہ دے سکتی ہے کہ وہ درندگی کے ساتھ عوام پر اپنی خواہش مسلط کریں کیونکہ ایسا کرنے سے ریاست اپنی خودمختاری قائم نہیں رکھ سکتی . بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور تشدد آمیز مذہبی انتہا پسندی نے اس ملک کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ یہ وہی عسکریت پسند ہیں جنہوں نے ریاست اور اس کے عوام کے خلاف اعلان جنگ کر رکھاہے ۔اب ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ یا تو ہم ان مسلح حملہ آوروں کے خلاف لڑیں یا پھر ان کے آگے ہتھیار ڈال دیں جو پاکستان کو دوبارہ عہدِ تاریک میں لے جانا چاہتے ہیں۔

اسلام سے متعلق داعش کے نظریات اور ان کی اسلامی اصولوں سے متعلق تشریح انتہائی گمراہ کن، تنگ نظر اور ناقابل اعتبار ہے کیونکہ رسول کریم صلعم نے فرمایا ہے کہ جنگ کی حالت میں بھی غیر فوجی عناصر کو قتل نہ کیا جاوے مگر داعش اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ داعش کا جہاد ،پاکستان کے اور مسلمانوں کے خلاف مشکوک اور غیر شرعی ہے۔ یہ کیسا جہاد ہے کہ خون مسلم ارزاں ہو گیا ہے اور داعش دائیں بائیں صرف بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کے قتل کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ شیعہ  مسلمانوں کو وہ مسلمان نہ جانتے ہیں۔ داعش قاتلوں اور  موت کے سوداگروں کا ایک گروہ ہے۔
داعش کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں صرف وہ ہی مسلمان ہیں اور باقی سب کافر بستے ہیں ،اس لئے وہ سب دوسرے مسلمانوں کا قتل جائز سمجھتے ہیں۔ مزید براں  داعش پاکستان کے موجودہ سیاسی اور سماجی نظام و ڈہانچےکو غیر اسلامی سمجھتے ہیں اور اس سیاسی و سماجی ڈہانچے کو بزور طاقت گرانے کے خواہاں ہیں۔داعش  اسلامی نظام نافذ کرنے کے داعی ہیں مگر اس مقصد کے حصول کے لئے وہ تمام کام برملا کر رہے ہیں جو قران و حدیث ،سنت نبوی اور اسلامی شرعیہ کے خلاف ہیں، لہذا ان کا اسلامی نظام نافذ کرنے کا دعوی انتہائی مشکوک اور ناقابل اعتبار ہے۔ داعش دورحاضر کے خوارج ہیں جو مسلمانوں کے قتل کو جائز قرار دیتے ہیں۔.

بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ معصوم انسانی جانوں سے کھیلنے والے درندے ہیں ‘ ان کا نہ تو اسلام اور نہ ہی پاکستان سے کوئی تعلق ہے۔ ایسے درندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جانا چاہیے۔دہشت گردی کی وجہ سے انسانوں کی جان، مال اور آبرو کو خطرے میں نہیں ڈالاجاسکتا ہے ۔ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق “ ۔( اور جس نفس کو خداوند عالم نے حرام قرار دیا ہے اس کو بغیر حق قتل نہ کرو)(سورہ اعراف ، آیت ۱۵۱)کی بنیاد پر تمام انسانوں کی جانیں محتر م ہیں چاہے وہ شیعہ ہوں یا اہل سنت،مسلمان ہوں یا غیر مسلمان۔ فرقہ واریت مسلم امہ کیلئے زہر ہے اور کسی بھی مسلک کے شرپسند عناصر کی جانب سے فرقہ واریت کو ہوا دینا اسلامی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور یہ اتحاد بین المسلمین کے خلاف ایک سازش ہے۔ ایک دوسرے کے مسالک کے احترام کا درس ہی دین اسلام کی اصل روح ہے۔قرآن کریم میں مفسد فی الارض اور محارب جو کہ دوسروں کی جان اور مال کو خطرہ میں ڈالتے ہیں ،کے لئے بہت سخت احکام بیان ہوئے ہیں ، اسی بات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام ہمیشہ دہشت گردی سے پرہیز کرتا ہے اور اسلام کے عظیم قوانین پر عمل کرنے سے معاشرہ کو دہشت گردی سے چھٹکارا ملتا ہے۔جو شخص کسی نفس کو …. کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کی سزا کے علاوہ قتل کرڈالے گا اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دے دی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دے دی۔ اس آیت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ جواسلام اور قرآن کے نام پر دہشت گردانہ حملے کرتے ہیں وہ جائز نہیں ہیں۔اللہ تعالہ فرماتے ہیں:
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘) المائدة، 5 : 32(
کہو، وہ (اللہ) اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔(سورۃ الانعام ۶۵)
وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اُسکے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔(سورۃ النساء۔۹۳)
ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق “ ۔( اور جس نفس کو خداوند عالم نے حرام قرار دیا ہے اس کو بغیر حق قتل نہ کرو)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا۔
تم (مسلمانوں) کے خون، اموال اور عزتیں ایکدوسرے پر حرام ہیں، اِس دن (عرفہ)، اس شہر (ذوالحجۃ) اور اس شہر(مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک بات پہنچا دی؟ صحابہ نے کہا ”جی ہاں۔
”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔”
مسلمان کو قتل کر دینا جہنم میں داخلے کا سبب ہے لیکن اس کا مصمم ارادہ بھی آگ میں داخل کر سکتا ہے۔
” جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے۔” صحابہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! ایک تو قاتل ہے (اس لیے جہنم میں جائے گا) لیکن مقتول کا کیا قصور؟ فرمایا ” اس لیے کہ اس نے اپنے (مسلمان) ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔”

 بے گناہ انسانوں کو سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے قتل کرنا بدترین جرم ہے اور ناقابل معافی گناہ ہے.کیا داعش  نے رسول اکرم کی یہ حدیث نہیں پڑہی، جس میں کہا گیا ہے کہ ”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے“ہمارا مذہب اسلام امن کا درس دیتا ہے، نفرت اور دہشت کا نہیں۔ خودکش حملے اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں یہ اقدام کفر ہے. اسلام ایک بے گناہ فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔

پاکستان میں کافی عرصہ سے داعش کی موجودگی کی اظلاعات تھی مگر حکام داعش کی موجودگی سے مسلسل انکار کرتے رہے۔اسلام بے گناہوں کے قتل کے خلاف ہے مگر داعش والے کس طرح کے مسلمان ہیں کہ یہ اسلامی احکامات کو پس پشت ڈال کر بے گناہوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ داعش والے نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی انسان۔ داعش کے دہشتگردوں نے دوسرے ممالک میں جو مظالم ڈہائے ہیں اور تباہی مچائی ہے  پاکستان اور پاکستانی عوام کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہئیے۔ تاتاریوں کے بعد یہ دوسری آفت ہے جس کا ملت اسلامیہ کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

داعش کے  اس خطرہ سے نبٹنے کے لئے ہمیں شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم حکمت عملی ترتیب دینی چاہئیے تاکہ اس خطرہ کا شروع ہی میں تدارک کیا جا سکے۔