خطرناک دہشتگرد آصف چھوٹو سی ٹی ڈی کی کارروائی میں تین ساتھیوں سمیت ہلاک


news-1484745525-2627_large

خطرناک دہشتگرد آصف چھوٹو سی ٹی ڈی کی کارروائی میں تین ساتھیوں سمیت ہلاک

آصف چھوٹو لشکر جھنگوی کے جس گروہ کے سربراہ تھے وہ لشکر جھنگوی العالمی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔لشکر جھنگوی کے سربراہ آصف چھوٹو گذشتہ روز شیخوپورہ کے قریب ایک مبینہ پولیس مقابلے میں دو ساتھیوں سمیت ہلاک ہو گئے تھے۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ لاہور میں کسی اہم سرکاری ادارے کو ہدف بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں حالیہ دنوں میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے ہر بڑے واقعے کے پیچھے شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی کا نام آتا رہا ہے، جس کی سربراہی آصف چھوٹو کیا کرتے تھے۔

327348_25926403

news-1484758670-3501_large

news-1484759083-8980

712306-policeoperation-1484680671-149-640x480

سندھ کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی کے مطابق رضوان عرف ناصر عرف آصف چھوٹو گاڑھی بلوچ کا تعلق کراچی کے علاقے لاسی پاڑہ سعود آباد سے تھا جبکہ ان کی پیدائش ضلع مظفر گڑھ تحصیل کوٹ ادو میں ہوئی تھی۔

آصف چھوٹو نے پرائمری تک تعلیم گاؤں سے، باقی تعلیم کراچی کے ایک مدرسے سے حاصل کی اور وہیں سے وہ فرقہ وارانہ شدت پسندی کی طرف مائل ہوئے۔

لشکر جھنگوی کا قیام 1996 میں عمل میں آیا تھا، جس کے بنیادی اراکین میں ریاض بسرا، ملک اسحاق، اکرم لاہوری، نعیم بخاری اور مطیع الرحمان شامل تھے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ مقابلوں میں ہلاک ہو گئے جبکہ اکرم لاہوری سزائے موت کے منتظر ہیں، جبکہ مطیع الرحمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں روپوش ہیں۔

کراچی میں فرقہ وارانہ واقعات میں لشکر جھنگوی کا نام اکرم لاہوری گروپ کے ساتھ منسوب تھا، لیکن 2005 میں حیدری مسجد اور امام بارگاہ علی رضا میں خودکش بم حملوں کے بعد آصف چھوٹو گروپ کا نام سامنے آیا۔ ان دھماکوں کا سرغنہ گل حسن بلوچ، آصف چھوٹو کا قریبی ساتھی تھا، جو 2013 میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گیا۔

آصف چھوٹو اور گل حسن بلوچ میں دوستی بعد میں رشتے داری میں تبدیل ہو گئی۔ گل حسن بلوچ کی بھانجی عارفہ کی آصف چھوٹو سے شادی ہو گئی۔ حیدری مسجد دھماکے کے بعد گل حسن بلوچ کی بھانجیاں لیاری کے علاقے سے اپنا گھر چھوڑ گئی تھیں۔ بعد میں گل حسن کی گرفتاری مانسہرہ سے عمل میں آئی تھی۔

گلشن اقبال میں مدینۃ العلم، عباس ٹاؤن، شکارپور امام بارگاہ اور جیکب آباد میں ماتمی جلوس میں حملے کی کڑیاں بھی آصف چھوٹو گروپ سے جوڑی گئی تھیں۔ سندھ حکومت نے ان کی گرفتاری پر 25 لاکھ جبکہ پنجاب حکومت نے 30 لاکھ رپے انعام رکھا تھا۔

آصف چھوٹو کی پہلی بار گرفتاری 2005 میں پنجاب میں عمل میں آئی اور سات سال تک جیلوں میں مقدمات کا سامنا کرنے کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد گذشتہ سال فروری میں ان کی گرفتاری کی خبر سامنےآئی۔ وہ کوئٹہ جا رہے تھے کہ ڈیرہ غازی خان سے انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس گرفتاری کے بعد سے لاپتہ وہ رہے اور ابمقابلے میں ان کی ہلاکت کی خبر سامنے آئی ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے سربراہ عمر رانا کا کہنا ہے کہ آصف چھوٹو لشکر جھنگوی کے جس گروہ کے سربراہ تھے وہ لشکر جھنگوی العالمی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ جب سے یہ اطلاعات آئیں کہ چھوٹو کو گرفتار کر لیا گیا ہے اس کے بعد گذشتہ ایک سال سے اس گروہ کی سرگرمیاں محدود تھیں۔ اس سے قبل 2012 سے لےکر 2015 تک دہشت گردی کی کئی کارروائیاں ان سے منسوب تھیں۔

’لشکر جھنگوی کو منظم اور متحرک کرنے میں ان کا بڑا کردار رہا ہے۔ موجودہ وقت لشکر جھنگوی کی قیادت تبدیل ہو گئی ہے، جو نئی قیادت ہے اس میں کراچی سے تعلق رکھنے والے شدت پسند شامل ہیں۔ یہ قیادت افغانستان میں موجود ہے اور وہاں سے اپنے حمایتیوں کے ذریعے تنظیم کو چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کے بیٹوں سمیت مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد آصف چھوٹو کی ہلاکت گذشتہ 18 ماہ میں پنجاب پولیس کی دوسری بڑی کارروائی ہے۔

پنجاب کے صوبائی وزیر رانا ثنااللہ ماورائے عدالت ہلاکتوں کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ سفاک، سنگدل اور خطرناک ملزمان ہیں، ایک ایک پر دو سے ڈھائی سو افراد کی ہلاکت کے الزامات ہیں اور یہ ملزم اس جرم میں گذشتہ دس سے 15 سال سے ملوث ہیں۔‘

انھوں نے کہا: ‘ایسے لوگو ں پر پولیس، فوج اور رینجرز کے جو اہلکار ہاتھ ڈالتے ہیں وہ قابل تحسین ہیں۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ان ملزمان کے پیچھے جاتے ہیں۔ ایسے ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر اس پورے عمل کو مشکوک بنا دینا درست نہیں ہے۔’

http://www.bbc.com/urdu/pakistan-38685362

آصف چھوٹو نے وزیراعلیٰ پنجاب سمیت متعدد اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کا منصوبہ بنا رکھا تھا ۔تفصیلات کے مطابق شیخوپورہ بائی پاس کے قریب محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی کارروائی میںکالعدم تنظیم سےتعلق رکھنے والا رضوان عرف آصف چھوٹواور اس کے3 ساتھی ڈاکٹرشاکراللہ عرف علی سفیان، نور الامین اور ایک نا معلوم دہشت گردمارا گیا۔پولیس ذرائع کے مطابق ضلع مظفرگڑھ سےتعلق رکھنے والے آصف چھوٹو کےسرکی قیمت 30 لاکھ روپے مقررتھی، وہ22سال سے ایک کالعدم تنظیم کے عسکری ونگ کا سرگرم رکن تھا۔ اس نے ریاض بسرا اور اکرم لاہوری کے ساتھ مل کر سیکڑوں افرادکوبے دردی سے قتل کیا۔

مظفر گڑھ کا رہائشی تھا ۔تقریبا 20سال قبل آصف چھوٹو نے کالعدم تنظیم میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں حصہ لینے کے بعد اپنے آبائی علاقے کو چھوڑ کر کراچی میں رہائش اختیار کر لی ،جہاں سے وہ مختلف شہروں میں دہشت گردی کی وارداتیں کرنے کے بعد دوبارہ کراچی بحفاظت واپس چلا جاتا تھا۔ملزم آصف چھوٹو ماضی کے بدنام زمانہ دہشت گرد اور حیدر آباد جیل میں قید اکرم لاہوری کا بھی قریبی ساتھی بتایا جاتا ہے ۔

سی ٹی ڈی عہدیدار نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے دہشت گرد نورالامین کا تعلق چارسدہ سے تھا اور وہ راولپنڈی کے پولیس انسپکٹر راجا ثقلین کے قتل سمیت امام بارگاہ کوچہ رسالدار میں ہونے والے خودکش دھماکے میں بھی ملوث تھا، اس کے سر پر 10 لاکھ روپے کا انعام مقرر تھا۔

سی ٹی ڈی عہدیدار کے مطابق انہیں خفیہ معلومات ملیں کہ کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ نے اپنےساتھیوں سمیت لاہور میں خفیہ اداروں اور دفاتر پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔عہدیدار نے مزید بتایا کہ سی ٹی ڈی کی ٹیم نے منگل 17 جنوری کی رات شیخوپورہ کراس کرتے وقت انھیں روکنے کی کوشش کی، مگر ملزمان نے پولیس ٹیم پر فائرنگ کردی اور مویشی مارکیٹ کی جانب فرار ہوگئے۔عہدیدار کے مطابق مقابلے کے دوران لشکر جھنگوی کے سربراہ سمیت 4 دہشت گرد مارے گئے جب کہ 3 فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

لشکر جھنگوی ایک دیو بندی عقائد رکھنے والا، فرقہ ورانہ ,سفاک ا ور بے رحم , گروپ ہے، 1996 میں معرض وجود میں آیا۔لشکر جھنگوی ایک عرصہ سے شیعہ مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ حملے کرنے کی وجہ سے شہرت رکھتاہے اور اب تک ہزاروں اہل تشعیہ کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے۔ لشکر جھنگوی کو القائدہ کا فرقہ ورانہ چہرہ بھی کہا جاتا ہے . اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے اور اس میں انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی جیسی برائیوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام میں ایک بے گناہ فرد کا قتل ، پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے.معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، بم دہماکے کرنا،خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا دہشتگردی ہے ،جہاد نہ ہے،جہاد تو اللہ کی راہ میں ،اللہ تعالی کی خشنودی کے لئےکیا جاتا ہے۔

خودکش حملے،دہشت گردی اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں یہ اقدام کفر ہے. جہاد وقتال فتنہ ختم کرنے کیلئےہوتا ہے ناکہ مسلمانوں میں فتنہ پیدا کرنے کیلئے۔لشکر جھنگوی قرآن کی زبان میں مسلسل فساد فی الارض کے مرتکب ہو رہے ہیں۔اسلامی ریاست کیخلاف مسلح جدوجہد حرام ہے۔ اسلام امن اور محبت کا دین ہے۔ دہشتگرد تنظیمیں جہالت اور گمراہی کےر استہ پر ہیں۔ اسلام ایک بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کرتا ہے۔لشکر جھنگوی مسلمانوں اور اسلام کی دشمن ہے اس کی اسلام اور مسلم کش سرگرمیوں کی وجہ سے مسلمانوں اور اسلام کا بہت نقصان ہوا ہے۔