سکولوں و تعلیمی اداروں پر دہشتگردی کا خطرہ


w460fff

سکولوں و تعلیمی اداروں پر دہشتگردی کا خطرہ

انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مختلف شہروں کے تعلیمی اداروں اور دفاعی تنصیبات پر دہشتگردوں کے حملے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ خفیہ اداروں کی جانب سے وفاقی وزارت داخلہ کو بھجوائے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 13 خود کش حملہ آور ملک میں داخل ہوئے ہیں جن کا مقصد ملک کے مختلف شہروں میں دفاعی تنصیبات اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانا ہے۔ اس لئے متعلقہ محکمے دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لئے موثر انتظامات کئے جائیں۔وزارت داخلہ نے ایک تھرٹ الرٹ جاری کیا ہے ہے کہ لاہور میں آرمی پبلک سکول کی طرز کے دہشتگردانہ حملے ہو سکتے ہیں۔

558b79a803c6d

میڈیا سے گفتگو میں رانا ثنا اللہ کاکہنا تھا کہ موسم کی سختی کی وجہ سے بھی سکول بند کئے گئے تاہم دہشت گرد پنجاب میں خوف و ہراس پھیلانے کیلئے کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ یوں تعلیمی اداروں کو خطرات لاحق ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے تمام تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی بہتر کرنے کیلئے ہدایات دیں ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تعلیمی ادارے بند کرکے بچوں اور ان کے والدین کو ڈپریشن میں رکھنا کسی طور پر بھی جائز نہیں ہے ۔ مگر ہم دہشت گردوں کو کھلی چھٹی نہ دے سکتے ہیں اور نہ ہی ہم دہشت گردوں کو اپنے بچے مارنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ احتیاط ہر حال میں لازم ہے۔

دہشت گردی کے ممکنہ خدشے کے پیش نظر پنجاب بھر میں سکولوں کے باہر ریڑھیاں لگانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔ ا س سلسلے میں سیکرٹری سکولز کی طرف سے تمام سکولوں کی انتظامیہ کو سرکلر بھیج دیا گیا ہے کہ کسی بھی صورت میں سکول کی دیوار کے ساتھ یا سکول کے سامنے کوئی بھی ریڑھی یا خوانچہ نہ لگانے دیا جائے۔ اس سلسلے میں تمام ٹاونز کمیٹیوں اور تحصیل کمیٹیوں کو بھین مراسلہ بھیج دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ پنجاب میں دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر سکولوں کو ایک ہفتے کی چھٹیاں دیدی گئی ہیں۔
پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دسمبر 2014 میں ہونے والے حملے کے بعد بھی پاکستان کے تعلیمی ادارے کچھ عرصے کے لیے بند رہے تھے اور اس دوران ان اداروں کی انتظامیہ کو حفاظتی انتظامات بہتر بنانے کا حکم دیا گیا تھا۔ 25 جنوری کو سکول 31 جنوری تک بند کر دیئے گئے۔یاد رہے کہ اس سے پہلے طالبان نے چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کر کے 20 بے گناہ و معصوم افراد کو شہید کردیا تھا اور 60 سے زیادہ لوگوں کو زخمی بھی کر دیا تھا۔ ان سکولوں کی بندش تعلیمی اداروں پر دہشتگردوں کے ممکنہ حملے اور سیکورٹی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
تعلیم کے دشمن، ظالم ، بے رحم اور انسانیت کے دشمن طالبان دہشتگردوں نے پاکستان کی امیدوں اور مستقبل پر حملےشروع کر دیئے ہیں ۔ چونکہ طلبہ سافٹ ٹارگٹ ہیں، ان پر حملے سے زیادہ دہشت پھیلتی ہے، اور دہشت گرد یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آپریشن ضربِ عضب کے بعد بھی ان میں اب بھی صلاحیت ہے کہ وہ دہشت پھیلا سکتے ہیں۔دہشت گرد ہمارے تعلیمی اداروں پر حملے کر کے ہماری نوجوان نسل کو ملک کے روشن مستقبل سے مایوس نہیں کرسکتے اور وہ اپنے ناپاک عزائم میں ناکام رہیں گے۔
طالبان کی سکول دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہ ہے۔ قرآنی احکامات کی صریح اور کھلی خلاف ورزی کر کے بھی یہ نام نہاد طالبان اسلام اور شریعت کا ڈھول پیٹ رہے ہیں مگر اُن کی جہالت کا سب سے بڑا شاہکار تعلیمی اداروں پر حملے کرنا اور طالبعلموں کا قتل ہے۔ا ن دہشت گردوں کا سکولوں کی تباہی اور سکول دشمنی کا رویہ بتاتا ہے کہ وہ طالبان نہیں جاہلان ہیں. سکول دشمنی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسلام اور پاکستان دونوں کے مخلص نہیں اور نہ ہی ان کو پاکستانی عوام میں دلچسپی ہے بلکہ یہ تو اسلام ،پاکستان اور عوام کے دشمن ہیں کیونکہ یہ ہمیں ترقی کرتے ہوئے دیکھ نہیں سکتے۔ دہشت گردوں کا سکول پر حملہ کرنا نہایت قبیح اور قابل مذمت کاروائی ہے۔ سکول ایک قومی دولت ہیں جہاں اس ملک کے بچے اور بچیاں زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر آئندہ ملک و قوم کی خدمت کر تے ہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی ۲۵ ملین بچے اور بچیاں حصول تعلیم کی نعمتوں سے محروم ہیں۔ تعلیم ایک ایسی بنیاد اور ستون ہے جس پر ملک کی سلامتی کا تمام دارومدار و انحصار ہے۔ پاکستان میں سکولوں پر حملے،سکولوں کی تباہی اور اساتذہ کا قتل ایک معمول سا بنتا جارہا ہے اور طالبان نہایت بے دردی کے ساتھ قومی دولت کو تباہ کر رہے ہیں اوطلبا اورر استذہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔طلبا اور استاد ملک و قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اور کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ان کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔طلبا اور استاد ہمارے معاشرے کا ستون ہوتے ہیں، معاشرے کی تقدیر بدلنے والا ہی استا د ہوتا ہے جو قومیں اس اثاثہ کی قدر نہیں کرتے وہ تباہ وبرباد ہو جاتی ہیں۔
طالبعلموںاور اساتذہ اور مسجدوں پر حملے کرنا اور نمازیوں کو شہید کرنا ، عورتوں اور بچوں کو شہید کرنا دہشت گردی اورخلاف شریعہ ہے اورہرگز جہاد نہ ہے۔
طالبان پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے داعی ہیں مگر اس مقصد کے حصول کے لئے وہ تمام کام برملا کر رہے ہیں جو قران و حدیث ،سنت نبوی اور اسلامی شرعیہ کے خلاف ہیں، لہذا ان کا اسلامی نظام نافذ کرنے کا دعویٰ انتہائی مشکوک اور ناقابل اعتبار یقین وہے۔
طالبان کا یہ کیسا جہاد ہے کہ خون مسلم ارزاں ہو گیا ہے اور طالبان دائیں بائیں صرف مسلمانوں کو ہی مار رہے ہیں۔بچوں اور بچیوں کے اسکول جلاتے ہیں۔ طالبعلموں اور اساتذہ کے قتل اور اغوا میں ملوث ہیں۔ ۔مساجد اور بازاروں پر حملے کرتے ہیں اور پھر بڑی ڈھٹائی سے، ان برے اعمال کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں۔
دہشت گردی اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں یہ اقدام کفر ہے اور قران و حدیث میں اس کی ممانعت ہے. جہاد وقتال فتنہ ختم کرنے کیلئے ہے ناکہ مسلمانوں میں فتنہ پیدا کرنے کیلئے۔طالبان قرآن کی زبان میں مسلسل فساد فی الارض کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

ہم دہشت گردی کی جنگ جیت رہے ہیں اس میں تھوڑی سی جو کمزوریاں ہیں ان کو دور کرنا چاہئے۔